تذکیرات جمعہ |
|
’’رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ اَنْ يُغْفَرَ لَه‘‘(سنن ترمذی:کتاب الدعوات:۳۸۹۰) کہ جو رمضان کے مہینے کو پائے اور اس میں اللہ کی عبادت کرکے اور اللہ سے توبہ اور استغفار کرکے اپنے آپ کی مغفرت نہ کروالے اس پر لعنت ہے،اس سے پتہ چلا کہ رمضان کا اصل مقصد اللہ سے اپنی مغفرت کروالینا اور اس وعید سے بچ جانا ہے،اسی وجہ سے کسی کہنے والےنے کہا ہے: ’’ لَيْسَ الْعِيْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِيْدَ اِنَّمَا الْعِيْدُ لِمَنْ اَمِنَ الْوَعِيْدَ‘‘(مرقاۃالمفاتیح:۵؍۱۲۳) عید اس کی نہیں ہوتی ہےجو نئے کپڑے پہن لے،بلکہ عید اس کی ہوتی ہے جو اس وعید سے بچ جائے۔ اور اس عید کا اصل مظہر قیامت کا دن ہے،جس کی دنیا کی یہ عید قبول ہوگئی تو کل کے دن وہاں بھی اس کی عید ہوگی،وہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی، مسرتیں ہی مسرتیں ہوں گیں، ہر ایک کی طرف سے خوش آمدید ہوگی، اللہ رب العلمین کی طرف سے سلام پیش کیا جائے گا: ’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَبٍّ رَحِيْمٍ‘‘(یس:۵۸) ان کو پروردگار کی طرف سے سلام فرمایا جاوے گا۔ وہاں کی خوشی اصل عید ہوگی،وہاں کی عزت اصل عزت ہوگی،وہاں کی ذلت اصل ذلت ہوگی،جو آدمی اس دن عزت پاگیا وہ عزت والا ہے، اور جو اس دن ذلیل ہوگیا اس سے بڑا کوئی ذلیل نہیں ہوگا۔آخرت کی ذلت سے پناہ مانگیں : اسی لئے حضور اکرمدعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ قیامت کے دن ذلیل مت فرمائیے،قرآن پاک میں اس دعا کا ذکر ہے: ’’رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلیٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ‘‘ (آل عمران:۱۹۴) ’’اے ہمارے پروردگار!اور ہم کو وہ چیز بھی دیجئے،جس کا ہم سے اپنے پیغمبروں کی معرفت آپ نے وعدہ فرمایا ہے اور ہم کو قیامت کے روز رسوا نہ کیجیے،یقینا آپ وعدہ خلافی نہیں کرتے ‘‘