تذکیرات جمعہ |
|
ذکر اتنی کثرت سےکروکہ لوگ پاگل کہنے لگیں : حدیث پاک میں آتا ہے،حضرت ابو سعید خدریروایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اَكْثِرُوْا ذِكْرَ اللّٰهِ حَتّٰى يَقُوْلُوْا مَجْنُوْنٌ‘‘(مستدرک حاکم:کتاب الدعاء:۱۸۳۹) ذکراتناکثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں،مطلب یہ ہےکہ ذکرکو اپنا مشغلہ بنالو، دیکھنے والے کہیں کہ یہ تو اس کا مشغلہ ہے،جس چیز کو آدمی کثرت سے کرنے لگتا ہے یا اس کا مشغلہ بنالیتا ہےتو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں اس چیز کا پاگل ہے، بعض لوگ کرکٹ کے پاگل ہوتے ہیں،رات اور دن اسی کی فکرپڑی رہتی ہے ،اور راتوں میں خواب بھی اس طرح کے نظر آنے لگتے ہیں، کس نے کتنے چوکے مارے؟ کتنے چھکے مارے؟کس نےکتنا اسکور کیا؟ کون ہارا؟کون جیتا؟اگر چہ کہ اس میں ان کاکچھ لینا دینا نہیں ہوتا،لیکن پوری فکر اورپورا وقت اسی میں صرف ہوتا ہے،ایسے ہی بعض لوگ گاڑیوں کے دیوانے ہوتے ہیں،کبھی یہ گاڑی خریدی،کبھی وہ گاڑی خریدی، کبھی اس کو بدلا،کبھی اس کو بدلا، یہ نیا ماڈل ہے ،وہ پرانا ماڈل ہے،ایسے ہی کسی کو کھانے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے،کس ہوٹل کا کھانا اچھا ہے؟کہاں کہاں لذیذ کھانے ملتے ہیں؟ کیا کیا کھانے ملتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ،غرض کسی چیز کے ساتھ قلبی مشغولیت اور اس میں پوری توجہ اور اس میں وقت صرف کرنے کو پاگل اور جنون سے تعبیرکیا جاتا ہے۔حدیث میں نبی نے ذکر بھی اتنی ہی کثرت سے ذکر کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: ’’أَكْثِرُوْا ذِكْرَ اللہِ حَتّٰى يَقُوْلَ الْمُنَافِقُوْنَ: اِنَّكُمْ مُرَاءُوْنَ ‘‘(شعب الایمان: العاشر من شعب الإيمان و هو باب في محبة الله عز و جل:۵۲۷) یعنی ذکراللہ اتنی کثرت سے کرو کہ منافقین یہ کہنے لگیں کہ تم دکھاوا کررہے ہو۔یہ تو آپ نے امت کو ترغیب دی،اور خودآپ کا معمول بھی یہی تھا۔