تذکیرات جمعہ |
|
حدیثِ جبرئیل میں احسان کے یہی معنیٰ بیان کئے گئے ہیں: ’’ اَلْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَاَنَّكَ تَرَاهُ ، فَاِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهٗ يَرَاكَ ‘‘(صحیح بخاری:کتاب فضائل الصحابہ:۴۷۷۷) احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، یعنی اگر تم اللہ کو دیکھ رہے ہوتےتو جیسی عبادت کرتے ہو ویسی ہی عبادت کرو، جیسے اگر کوئی کام میں مشغول ہواور اسے حاکمِ وقت یا اس کا نائب یا اس کا باس (Boss)دیکھ رہا ہو اور ہم بھی اس کو دیکھ رہے ہیں تو اس وقت جس کیفیت اور دھیان کے ساتھ اور جس خوبی اورکمال کے ساتھ اور جس محنت اور لگن کے ساتھ اس فعل کو ہم انجام دیتے ہیں اسی طرح حق تعالیٰ کا استحضار رکھ کر آدمی دین اور دنیا دونوں پر عمل کرے۔احسان کا اعلیٰ درجہ : احسان کی یہ کیفیت ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی کہ حق تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ اسے نصیب ہو،اور اس کا غلبہ اس پر ہو،اور اپنے ہر فعل کو آدمی اس کیفیت کے ساتھ ادا کرے،یہ احسان کا اعلیٰ درجہ ہے،ہاں کسی کسی کو یہ کیفیت نصیب ہوجاتی ہے،شاید اسی کیفیت کا نبی نے اس حدیثِ مبارکہ میں اشارہ کیا ہے: ’’جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِيْ فِي الصَّلَاةِ‘‘(سننِ نسائی:کتاب عشرۃ النساء:۳۹۴۰) میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔احسان کا ادنیٰ درجہ : اگرکسی پر یہ کیفیت طاری نہ ہو تو کم از کم یہ کیفیت تو اس کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے جو حدیث کے دوسرے جملہ میں مذکور ہے:’’فَاِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَاِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘ کہ تم اگر حق تعالیٰ کا مشاہدہ نہ کرسکے تو حق تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے،یہ احسان کا ادنیٰ درجہ ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی اللہ پاک نے اس کے بارے میں ارشادفرمایا: ’’اَلَّذِیْ يَرَاكَ حِيْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلُّبَكَ فِی السَّاجِدِيْنَ‘‘(الشعراء:۲۱۸)