تذکیرات جمعہ |
|
بغاوت بھی بغی میں داخل ہے : بغی کے ایک معنیٰ بغاوت، سرکشی اورفتنہ برپا کرنے کے ہیں،گویا کسی کی طاعت میں رہنے سے انکار کرنا،کسی کے خلاف خروج کرنا، آپس میں پھوٹ اور فتنہ پیدا کرنا بھی بغی کے مفہوم میں داخل ہے،اس کا بھی بڑا گناہ ہے،نبی نے اس سے بچنےکی بھی تاکید کی ہے،اور اپنے امیر یاحکام اورحکمرانوں کی بغاوت اور ان کی بات نہ ماننےسے سختی سے روکا ہے،کیونکہ اس کی وجہ سے پورا نظام درھم برھم ہوجاتا ہے،خود باغی کوبھی اس کا نقصان پہنچتا ہے اور دوسرےبھی اس کی وجہ سےپریشان ہوتے ہیں اور بعض دفعہ توان کی جان اور مال تک کے لالے پڑجاتے ہیں،اسی لئے قرآن مجید میں اللہ نے ان کی اطاعت کا حکم دیا: ’’ يٓأَيُّهَا ٱلَّذِيْنَ اٰمَنُوٓا۟ أَطِيْعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِْيعُوا۟ ٱلرَّسُوْلَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنْكُمْ‘‘(النساء:۵۹) اس آیت میں اولوالامر سے دینی اعتبار سے علماءاور فقہاء اور دنیوی اعتبار سےحکام مراد ہیں، اورمفسرین نے کسی بھی معاملہ میں امیر کی اطاعت کو اس آیت کی رو سے لازم قرار دیا ہے۔ ’’وَالظَّاهِرُ(وَاللّٰهُ اَعْلَمُ)اَنَّ الْآيَةَ فِيْ جَمِيْعِ اُولِي الْاَمْرِ مِنَ الْاُمَرَاءِ وَالْعُلَمَاءِ‘‘(تفسیر ابن کثیر: ۲؍۳۴۵)اس لئے کسی سے بغاوت جائز نہیں ہے۔کیا ہر امر میں امیر کی اطاعت کی جائے گی؟ ہاں اگر حکام یا امراء خلافِ شرع کاموں کا حکم دیں تو اب ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی، بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر عمل کیا جائے گا۔کیونکہ حدیث میں نبی نے اس سےمنع کیا ہے۔ حضرت علیسے روایت ہے کہ آپنے ایک لشکر روا نہ کیا اور اس کا امیر عبداللہ بن حذافہ کو مقرر کیا اور لشکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ وہ ان سے کسی بات پر خفا ہو گئے، اور بہت زیادہ ناراض ہوگئے،اور ان سے کہنے لگے کہ کیا رسول اللہنے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ وہ کہنے لگےکیوں نہیں؟انہوں نے کہا :اچھا تو ایندھن جمع کرو، آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہو جاؤ،لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی اور جب داخل ہونے کا ارادہ کیا