تذکیرات جمعہ |
|
حضرت عیسیٰ ابن مریم نے فرمایا:احسان یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ احسان کرو جو تمہارے ساتھ احسان کرے ،کیونکہ وہ تو مکافات اوربدلہ ہے،بلکہ احسان یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ حسن سلوک کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے۔عدل اور احسان میں فرق : علامہ قرطبی نے احسان کی تعریف اس انداز میں کی ہے: احسان ہر فعل مندوب کو کہتے ہیں،اور کبھی وہ فرض ہوتا ہےاور کبھی مستحب،مگر یہ کہ اس فعل کو اس کے اجزائے حقیقی یعنی ارکان کے ساتھ اداکرنا عدل ہے،اور ان ارکان کے علاوہ اور امور کے ساتھ مکمل اور بہتر طریقے پر انجام دینا احسان ہے۔ (تفسیر قرطبی:۱۰؍۱۴۷) گویا علامہ قرطبی نے فعل کے دو جزء بتلائے ہیں،ایک فعل کا وہ رکن جس سے فریضہ ساقط ہوجائے،اور جس کی ادائیگی کی وجہ سے بندہ ذمہ سے بری ہوجائے،اور ایک ہے اس میں حسن ، خوبی اورکمال پیدا کرنا۔پہلی صفت کا نام عدل ہے اور دوسری صفت کا نام احسان ہے۔احسان کمیت اور کیفیت دونوں میں ہوتا ہے : علامہ آلوسینے لکھا ہے کہ احسان کیفیت اور کمیت دونوں میں ہوتاہے، اعمال میں اور عبادتوں میں احسان یہ ہے کہ اس کو مناسب طریقے پراس کیفیت کے ساتھ بجالایا جائے جیسا کہ حدیثِ احسان سے معلوم ہوتا ہے،اور کمیت میں احسان یہ ہے کہ نوافل وغیرہ اداکئے جائیں،تاکہ اس سے واجبات اور فرائض میں جو نقص رہ گیا اس کی تلافی ہوجائے۔(روح المعانی:۱۰؍۲۷۹)احسان کی حقیقت : ان سب کا خلاصہ اور ان سب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مامور کو پورے خشوع اور خضوع کے ساتھ،اس کےآداب، سنن، مستحبات کی رعایت کے ساتھ، پوری توجہ ،دھیان اور اخلاص کے ساتھ اس طرح ادا کیاجائے کہ حق تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ ہو،اورعبادت کی ادائیگی کے وقت یہ کیفیت پیدا ہوجائے تو یہی احسان ہے۔