تذکیرات جمعہ |
|
عدل لغت میں ہر شئی میں افراط اور تفریط ،کمی اورزیادتی کے بغیربرابری کرنا اورہر چیز میں اعتدال،میانہ روی اوردرمیانی راہ اختیار کرنے کا نام ہے۔(تفسیر خازن:۴؍۲۰۴) عام طورپر ہم اس کاترجمہ انصاف سے کرتے ہیں،یہ صحیح ہے،لیکن اس کا دائرہ ہم بالکل محدود کرلیتے ہیں کہ صرف ظلم اور جھگڑے وغیرہ کا موقعہ ہی اس کا محل سمجھتے ہیں،جب کہ اس کے مفہوم میں بہت زیادہ وسعت ہے۔مفسرین نے اس کی کئی تفسیریں لکھی ہیں،حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہاں عدل سے مراد توحیداور کلمۂ شہادت کا اقرار ہے۔(ابن کثیر:۴؍۵۹۵)عدل کی حقیقت : لیکن تفاسیرمیں اس کی ایک مختصر اور جامع تفسیر لکھی ہے: ’’إِعْطَاءُ الْحَقِّ إِلَى صَاحِبِهِ‘‘(التحریر والتنویر:۱۴؍۲۵۴) ’’صاحبِ حق کو اس کا حق دینا‘‘۔چاہے وہ خالق ہو یامخلوق ہو،اورمخلوق میں اپنی ذات ہو، یااپنی ذات کےعلاوہ دوسرے انسان ہوں،پھراس مخلوق کی دو قسمیں ہیں، ذوی العقول جیسے جنات اورانسان،اور غیر ذوی العقول جیسے جانور،سب اس کےعموم میں داخل ہیں،سب کے حقوق ادا کرنا عدل ہے اور ان میں کمی کوتاہی کرنا ظلم ہے،اورایسے ہی ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا اور افراط و تفریط سے بچنا عدل ہےاور اس کے خلاف کرنا ظلم ہے۔سعادت کے چار بنیادی امور : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوینے فرمایا ہے کہ سعادت کی چاربنیادیں ہیں،اگر کسی کو یہ چار چیزیں حاصل ہوجائے تو اس کو سعادت مل جائے گی، اور ہر بندے کو یہی کوشش کرنی چاہیے کہ اسے سعادت کی یہ بنیادیں حاصل ہوجائیں، ان میں سے پہلی چیز طہارت ہے، اسلام میں سب سے اہم چیز جس کو ترجیح دی گئی وہ طہارت ہے۔ دوسری چیز اخبات ہے، اخبات کے معنیٰ ہیں فرمانبرداری کرنا، نرم ہوجانا، سیرنڈر ہوجانا، بات مان لینا، طبعیت میں تواضع ہونا۔ تیسری چیز سماحت ہے، سماحت شح اور بخل کے مقابلہ میں ہے،یعنی سماحت سخاوت کو کہتے ہیں،