تذکیرات جمعہ |
|
اپنے نفس کی رعایت نہ کرنا بھی ظلم ہے : جیسے اللہ کے ساتھ یہ معاملہ ہے ایسے ہی مخلوق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے،مخلوق کے حقوق میں کمی کوتاہی بھی ظلم ہے،بلکہ انسان کو اپنی ذات پر بھی ظلم سے روکا گیاہے،اور ذات کی رعایت نہ کرنے سے منع کیا گیا ہے،اور اس کی ذات کے ساتھ بھی عدل کی تعلیم ہے،ذات سے عدل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے ذات کو نقصان پہنچے،نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں،جس عمل سے نقصان ہو یا جس عمل سے حقوق میں کمی کوتاہی ہووہ ذات کے ساتھ ظلم ہوگا۔حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص کا قصہ : اسی وجہ سے حدیث میں ہے : ’’فَاِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا،وَاِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا‘‘(صحیح بخاری:کتاب النکاح:۵۱۹۹) ’’بے شک تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے‘‘ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمرو بن عاص نے اپنے بیٹے کا نکاح کیا،چند دن بعد بہو کے پاس آئے اور بہو سے پوچھا کہ تمہارا شوہر کیسا ہے؟انہوں نے کہا کہ بہت نیک آدمی ہے،رات بھر سوتا نہیں ہے،عبادت میں مصروف رہتا ہے،اور دن بھر روزہ رکھتا ہے،وہ سمجھ گئے کہ بیٹا بہو کا حق ادا نہیں کررہا ہے،اس کی خبر نبیکو دی،تو آپ نے فرمایاکہ سو،کیونکہ آنکھوں کا بھی حق ہوتا ہے،نیند کی ان کو ضرورت ہوتی ہے،اس کا لحاظ کرنا چاہئے،بدن کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے،اس کی رعایت کرنی چاہئے،بیوی کے بھی حقوق ہوتے ہیں،ان کو اداکرنا چاہئے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہےکہ اتنا زیادہ بھی عبادت میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے کہ بدن کا حق ادا نہ ہو،پتہ چلاکہ اپنے نفس کے ساتھ اور بدن کے ساتھ بھی زیادتی اور ان کے حق میں کمی کوتاہی درست نہیں ہے۔