تذکیرات جمعہ |
|
نمازوں کے اوقات منصوص ہیں : پہلی بات یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ،ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے : ’’اِنَّ الصَّلاَ ةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا‘‘(النساء:۱۰۳) ’’بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے‘‘ اس کی ابتدا کا بھی ایک وقت ہے اور اس کے ختم ہونے کا بھی ایک وقت ہے، اور یہ وقت سب نمازوں کیلئے ہے،چاہے وہ فجرہو،یاظہرہو،یاعصر ہو،یامغرب ہو،یاعشاء ہو ،یا جمعہ ہو۔نمازوں میں سستی پر وعید : ’’فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۔ اَلَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ‘‘(الماعون:۴و۵) ’’پھر بڑی خرابی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘‘ نمازوں میں سستی کی ایک صورت یہی ہے کہ ان کو وقت پر ادا نہ کیاجائے،اور اوقات میں تقدیم و تاخیر کرکے اس اعتبار سے نمازیں ادا کی جائیں،اورنمازوں کو قبل از وقت ہی ادا کرلیاجائے،یہ اس آیت کے عموم میں داخل ہے،گویا اس اعتبار سے یہ وعید ایسے لوگوں کو بھی شامل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں آپ کا دائمی عمل یہی بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ جمعہ کی نماز سورج کے زائل ہونے کے بعد یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ادا فرماتے تھے۔آپ نے سوائے مزدلفہ کے کہیں جمع بین الصلاتین نہیں کیا : حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں: ’’مَا رَأَيْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا‘‘(صحیح بخاری:باب من یصلی الفجر بجمع:۱۶۸۲)