تذکیرات جمعہ |
|
یہ امتِ محمدیہ کی خصوصیت ہے،اس میں اعتدال کو بنیاد بنایاگیاہے،اسی وجہ سے جو اسلامی تعلیمات اور ہدایات ہیں ان سب میں آپ کوعدل ہی نظر آئے گا، اوراگر آپ اسلامی تعلیمات سے ہٹ جائیں تو اس میں آپ کو عدل نظر نہیں آئے گا۔عدل کی ضد : عدل کی جو ضد ہے وہ ظلم ہے،اور ظلم کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا: ’’وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ‘‘(فصلت:۴۶) ’’اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘ اس لئے رب نے جو علوم دئے ہیں،اور جو تعلیمات دی ہیں اس میں ظلم نہیں ہوسکتا، اس میں عدل ہی ہوگا،چاہے اس کا نظام انفرادی ہو یا اجتماعی،معاشی نظام ہو یا سیاسی نظام ہو،معاشرتی نظام ہو یا اخلاقی نظام ہو،سب عدالت پر مبنی ہیں۔ظلم کی حقیقت : ہم ظلم کے مفہوم میں بھی بہت تنگی کردیتے ہیں،مار پیٹ،لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ ہی کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں،لیکن صرف اس کا نام ظلم نہیں ہے،بلکہ ظلم کہتے ہیں: ’’وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ شئی کو اس کے غیر محل میں رکھنا۔ یعنی چیز کا جو مقام اور مرتبہ ہے،اور اس کا جو محل ہے،اور اس کا جو حق ہےوہ اس کو نہ دینا ۔ اب اس کے عموم میں ساری چیزیں داخل ہیں،جس چیز کے حق میں کمی کوتاہی ہو اس کے ساتھ وہ ظلم ہے،اس کو اس کا مقام نہ دینا ظلم ہے،اس کو جیسے استعمال کرنا چاہئے ویسا استعمال نہ کرنا ظلم ہے،اس کی رعایت نہ کرنا ظلم ہے۔سب سے بڑا ظلم : اور سب سے بڑا ظلم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا ہے، قرآن پاک میں ہے: