تذکیرات جمعہ |
|
جمع بین الصلاتین کے بارے میں حضرت عمر کا فرمان : دوسری روایت حضرت عمر کا فرمان ہے،جس کی بنیاد بھی خود حدیثِ مبارکہ ہے،جس میں انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ: ’’يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِیْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . اَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ‘‘۔(مؤطا محمد:باب الجمع بین الصلاتین فی السفر:۲۰۵) کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو پھر حضرت عمرکیوں روکتے؟اور اللہ اوراسکے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو کیوں ختم کرتے؟پتہ چلاکہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔جمع بین الصلاتین والی روایت قرآن کے معارض ہے : (۱)اب رہی وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بناء پر دونمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ وہ قرآن سے متعارض ہے،کیونکہ قرآن مجیدمیں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے،اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے،اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہوتو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے،اس لئے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے اسی پر عمل کیاجائے گا،اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا،اوردونمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔روایات میں جمعِ صوری مراد ہے جمعِ حقیقی نہیں : (۲)دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے حقیقتاً نہیں،اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نمازاتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہوئی ،کچھ دیر انتظار کیا جائے،پھرجب عصر کا وقت شروع