تذکیرات جمعہ |
|
میں نے نبی کریم کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ نے جمع فرمائیں اورفجر کو اس کے وقت مقررہ سے پہلےادا کیاہو ہے۔(تحفۃ الاحوذی:باب ماجاء فی الاسفار بالفجر،و مرقاۃ:۹؍۱۵۷) نیزخلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر ،حضرت عثمان اور حضرت علی کا عمل بھی یہی تھا،اور اسی پر مواظبت کے ساتھ وہ عمل پیرا تھے۔ اور پھراوقات کا مسئلہ ایسا ہے کہ کبھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی،شریعت کے بہت سے احکام منسوخ ہیں،ابتداءمیں حکم کچھ اور تھا،بعد میں اللہ پاک نے اس حکم کومنسوخ کردیا،اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل فرمایا،لیکن اوقات میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی،کبھی اس میں تقدیم و تاخیر نہیں کی گئی۔ ان آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کیا جائے گا،ان میں تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہوگی۔اب ان ارشادات نبوی پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جس میں نبی نے دو نمازوں کوایک ہی وقت میں جمع کرنے کا ذکر کیا ہے۔جمع بین الصلاتین پر وعید : حضرت ابن عباسسے روایت ہے: ’’مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ اَبْوَابِ الْكَبَائِرِ‘‘(سنن الترمذی:باب ماجاء فی الجمع بین الصلاتین فی الحضر:۱۸۸) ’’جو آدمی بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کرے(پڑھے)گا تو وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہونچ چکا۔ اس حدیث میں نبی نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے،ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے،اس لئے ان نصوص میں لازماً تاویل کرنی پڑے گی جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یا صحابۂ کرام نےدونمازوں کو صرف ایک ساتھ جمع کیا ہے۔