تذکیرات جمعہ |
|
کیونکہ اللہ پاک فرمارہے ہیں:’’وَلٰكِنْ لَا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ‘‘یعنی زمین و آسمان اور ان میں پائی جانے والی مخلوق اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں لیکن ہم ان کی تسبیح نہیں جانتے،اگر ان کی تسبیح قولی نہ ہوتی بلکہ حالی ہوتی توآدمی اس کو تدبر اورتفکر سے جان لیتا،لیکن اللہ پاک فرمارہے ہیں کہ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے اور ظاہر ہے کہ ہم ان کی حقیقی تسبیح نہیں سمجھ سکتے اس لئے ان کی تسبیح کرنے سے حقیقت میں تسبیح کرنا مراد ہے۔پہاڑوں کی تسبیح اور ان پر خوفِ خدا کا اثر : اس کے علاوہ کئی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ سے حقیقۃ ان کی تسبیح ثابت ہوتی ہے،جیسے پہاڑوں کے بارےاللہ پاک نےفرمایا: ’’ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ‘‘(ص:۱۸) یعنی ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا کہ وہ داؤد()کے ساتھ صبح و شام تسبیح کرتے ہیں ،ایسے ہی سورۂ بقرہ میں پہاڑوں کے اللہ کے خوف سےگرنے کا ذکر ہے:’’وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ‘‘(البقرۃ:۷۴) یعنی پہاڑ کے بعض پتھر اللہ کے خوف سے نیچے گر جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا : ’’اِنَّ الْجَبَلَ يُنَادِیْ الْجَبَلَ بِاسْمِهٖ يَا فُلَانُ! هَلْ مَرَّ بِكَ الْيَوْمَ ذَاكِرٌ فَاِنْ قَالَ نَعَمِ اسْتَبْشَرَ ‘‘(شعب الایمان: العاشر من شعب الإيمان و هو باب في محبة الله عز و جل:۵۳۸) ’’ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے کہتا ہے:اے فلاں کیا تیرے اوپر کوئی ایسا آدمی گذرا ہے جو اللہ کو یاد کرنے والا ہو، اگر وہ کہتا ہے کہ ہاں تو یہ پہاڑ اس سے خوش ہوتا ہے ‘‘کھانے کی تسبیح : ایسے ہی ایک روایت میں حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں: ’’ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهْوَ يُؤْكَلُ‘‘(صحیح بخاری:کتاب المناقب:۳۵۷۹)