تذکیرات جمعہ |
|
حضرت عمراور حضرت ضبہ کا مکالمہ : اس طرح کئی مرتبہ ہوااور ان دونوں میں جھگڑا ہوا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حضرت عمر کو خط لکھا اور کہا کہ ضبہ ہم پر لعن طعن کرتا ہے،حضرت عمر نے ان کو مدینہ بھیجنے کا حکم فرمایا،یہ مدینہ آئے ،اور حضرت عمرکے پاس داخل ہوئے تو حضرت عمر نے کہا: ’’لَا مَرْحَبًا بِضَبَّةَ وَلَا اَهْلًا‘‘ ضبہ اور اس کے اہل کے لئے خوشی اور مبارک بادی نہیں ہے،ضبہ نے کہا کہ بہر حال خوشی تو اللہ دینے والا ہے،اور رہی آل کی بات تو میرے پاس آل اور مال نہیں ہے،حضرت عمر نے کہا کہ ’’مَا الَّذِیْ شَجَرَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ عَامِلِكَ‘‘؟ تمہارے اور تمہاے گورنر کے درمیان کیا بات ہوئی؟کہنے لگے کہ اے امیر المؤمنین !بات در اصل یہ ہے کہ جب ابو موسیٰ اشعری خطبہ دیتے ہیں تو پہلے اللہ پاک کی حمدو ثنا بیان کرتے ہیں،پھرنبیپر درودِ مبارکہ بھیجتے ہیں،پھر آپ کی تعریف اور آپ کے لئےدعا کرتے ہیں،تو مجھے یہ بات ناگوار ہوئی کہ وہ آپ کا ذکر تو کریں اور ابو بکرصدیق کا ذکر چھوڑ دیں، گویا وہ آپ کو حضرت ابو بکر پر فضیلت دے رہے ہیں،بس یہ بات تھی،انہوں نے اس کی شکایت آپ سے کردی ، یہ سنتے ہی حضرت عمر رونے لگے اور کہنے لگے:’’ اَنْتَ وَاللّٰهِ اَوْفَقُ مِنْهُ وَاَرْشَدُ مِنْهُ‘‘اللہ کی قسم تم ان سے زیادہ صحیح ہو،پھر کہنے لگے کہ کیا تم مجھے معاف کردوگے؟ ضبہ کہنے لگے: کہ اے امیر المؤمنین اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائیں گے۔ابو بکر کا ایک دن اور ایک رات عمراور آلِ عمر سے بہتر ہے : پھر حضرت عمر کہنے لگے: ’’وَاللّٰهِ لَلَيْلَةٌ مِنْ اَبِيْ بَكْرٍ وَيَوْمٌ خَيْرٌ مِنْ عُمَرَ وَآلِ عُمَرَ‘‘ اللہ کی قسم ابو بکر کی صرف وہ ایک رات اوردن عمر اور آلِ عمر سے بہتر ہے،اس کے بعد کہنے لگے کہ کیا میں تم کو اس رات اور دن کے بارے میں نہ بتاؤں؟میں نے کہا ضرور اے امیر المومنین! ضرور بتلائیے۔