تذکیرات جمعہ |
|
لئے،اس لئےاذان جو لوگوں کے اعلان کے لئے ہواس کو سنتے ہی نماز کی تیار کرنا چاہیئے،اس کے بعد کسی اور کام کا کرنا جائز نہیں ہے۔اذانِ اول پراجماعِ صحابہ ہے : چونکہ سارے صحابہ کی موجود گی میں اس کی ابتداء ہوئی،اور کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، اس لئے اس پر صحابہ کا اجماع بھی ہے، اور اجماع حجتِ شرعیہ ہے،اور پھر یہ اجماع صحابہ کا اجماع ہے،اس لئے اس اذان کی مشروعیت میں اختلاف کا کوئی سوال ہی نہیں۔تعددِ اذان حضرت عمر کے زمانے سے ثابت ہے : دوسری دلیل یہ ہے : ’’عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ اَبِي مَالِكٍ الْقُرَظِيِِّ اَنَّهٗ اَخْبَرَهٗ اَنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يُصَلُّوْنَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتّٰی يَخْرُجَ عُمَرُ فَاِذَا خَرَجَ عُمَرُ وَجَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَاَذَّنَ الْمُؤَذِّنُوْنَ قَالَ …فَاِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُوْنَ وَقَامَ عُمَرُ يَخْطُبُ اَنْصَتْنَا فَلَمْ يَتَكَلَّمْ مِنَّا أَحَدٌ‘‘(مؤطا مالک:النداء للصلاۃ،۳۴۳) حضرت ثعلبہ ابن ابی مالک قرظی کہتے ہیں کہ وہ حضرت عمر کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز پڑھتے تھے،یہاں تک کہ حضرت عمر نکلتے،پھر جب حضرت عمر نکلتے تومنبر پر بیٹھ جاتے اور موذنین اذان دیتے،ثعلبہ کہتے ہیں کہ پھر جب موذنین خاموش ہوجاتے اور حضرت عمر خطبہ دینے کے لئےکھڑے ہوتے تو ہم بھی خاموش ہوجاتے اور ہم میں سے کوئی بات نہ کرتا۔ حضرت انور شاہ کشمیری نے اس حدیث کے پیش نظر کہا ہے کہ تعددِ اذان خودحضرت عمر کے زمانے سے بھی ثابت ہے۔(انوار الباری:۱۷؍۹۹)اس لئے حضرت عثمان نے اگر اس کی باضابطہ ابتداء کی تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔تعددِ اذان کی اصل حضور بھی سے ثابت ہے : بلکہ آپخود حضرت بلال کے اذان دینے کے بعدحضرت عبد اللہ بن زید کو بھی تلقی کا حکم دیتے تھے ان کی آواز بڑی ہونے کی وجہ سے۔(اوجز المسالک:کتاب الصلاۃ:۲؍۱۸)