تذکیرات جمعہ |
|
’’مَنْ لَمْ يَتَمَكَّنْ مِنْهَا لِحَدِيْثٍ أَوْ غَيْرِهٖ يَقُوْلُ نَدْبًا كَلِمَاتِ التَّسْبِيْحِ الْأَرْبَعَ أَرْبَعًا‘‘(رد المحتار:باب الوتر والنوافل،۵؍۱۵۹)دورانِ خطبہ تحیۃ المسجد کا حکم : تحیۃ المسجد کا یہ حکم تو علماء احناف کے یہاں ہے،لیکن جو حضرات اسے واجب قرار دیتے ہیں تو ان کے نزدیک یہ نوافل کے ضمن میں ادا نہیں ہوگی،بلکہ اسے مستقلاً ادا کرنا پڑے گا،اور اسی وجہ سے وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ تحیۃ المسجد دوران خطبہ بھی ادا کی جائے گی۔مگر ہمارے پاس جائز نہیں ہے ،بلکہ ہمارے یہاں یہ گناہ ہے۔ اگر پہلے سے پڑھ رہے ہوں اورخطبہ شروع ہوجائے تو گناہ نہیں ہے،جلدی سے اس کو مکمل کرکے خطبہ سننے میں مشغول ہوجائے۔ لیکن اگر خطبہ شروع ہوچکا ہے اور کوئی تحیۃ المسجد اس کے بعدشروع کرے تو وہ گنہگار ہوگا۔دورانِ خطبہ خاموشی واجب ہے : کیونکہ ہمارے یہاں خطبہ خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے،آپ نے خاموش رہنے کا بھی حکم دیا ہے اور نماز پڑھنےسے بھی منع فرمایا ہے: ’’اِذَا قَعَدَ الْاِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلاَ صَلاَة‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’اِذَا دَخَلَ اَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ وَالْإمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَا صَلَاةَ وَلَا كَلَامَ حَتّٰى يَفْرُغَ الْاِمَامُ‘‘(مصنف ابن ابی شیبة:۵۲۱۳وکنز العمال:۲۱۲۱۲ بحوالة المعجم للطبرانی) جب امام منبر پر بیٹھ جائے تو کوئی نماز نہیں پڑہی جائے گی۔ ’’اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ اَنْصِتْ،وَالْاِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ‘‘(صحیح بخاری:۹۳۴) جب تو نے اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن کہا کہ خاموش ہوجا، اس حال میں کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اس نے بے کار عمل کیا۔ ’’اِذَا خَرَجَ الْاِمَامُ فَلَاصَلَاۃَ وَلَا کَلَامَ‘‘(کنز العمال:21212 بحوالہ معجم طبرانی) جب امام خطبہ کے لئے نکل جائے تو اب نہ نماز ادا کی جائے گی، اور نہ بات کی جائے گی۔