تذکیرات جمعہ |
|
اس حدیث میں امام کے نکلنے سے قبل منبر کے پاس ٹہر کر حدیث بیان کرنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔حضرت تمیم داریکا عمل : اسی طرح حضرت تمیم داری بھی حضرت عمر اور حضرت عثمان کے زمانے میں خطبہ سے پہلے وعظ فرمایا کرتے تھے۔امام زہری نے حضرت سائب بن یزید سے روایت نقل کی ہے کہ سب سے پہلے مسجد نبوی میں تمیم داری ہی نےوعظ کیا۔’’ وَكَانَ أَوَّلُ مَنْ قَصَّ تَمِيماً الدَّارِىَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنْ يَقُصَّ عَلَى النَّاس قَائِماً فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ‘‘(مسند احمد:۱۶۱۲۶و إسناده ضعيف من أجل بقية بن الوليد الحمصي، فهو مدلس،لیکن حسین سلیم اسد الدارانی موارد الظمآن کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: نقول:هذا إسناد صحيح، فقد صرح بقية بالتحديث فانتفت شبهة تدليسه. والزبيدي هو محمد بن الوليد(موارد الظمآن:۱؍۲۱۷، اگر بالفرض ضعف تسلیم بھی کیرلیاجائے تو متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے) غرض وہ حضرت عمرسے وعظ کے لئے اجازت مانگتے رہے، حضرت عمرانکار فرماتے رہے، انکار کی وجہ غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ صحابہ و تابعین کے زمانہ میں عربی خطبہ ہی وعظ کے لئے کافی ہوتا تھا، کیونکہ عربی سمجھتے تھے، دوبار وعظ بے ضرورت تھا نیز ضبط و نظم کے لئے بھی انکار مناسب تھا۔ لیکن جب وہ بار بار اجازت چاہنے لگے تو حضرت عمر نے کہا کہ تم کیا چیزیں بیان کروگے؟ کہنے لگے کہ میں ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کروں گا،وعظ و نصیحت کی باتیں کروں گا،خیر کا حکم دوں گا اور شر سے روکوں گا،تو حضرت عمرنے ان کو اجازت دیدی، کیونکہ ہوسکتا ہے بعد میں اس کو مناسب سمجھا،اور فرمایا: ’’عِظْ قَبْلَ اَنْ اَخْرُجَ لِلْجُمُعَةِ‘‘کہ میرے جمعہ کو نکلنے سے پہلے تم وعظ و نصیحت کرو،چنانچہ وہ ہفتہ میں ایک دن وعظ کرتے تھے، پھر حضرت عثمان کا زمانہ آیا،توحضرت عثمان سے اجازت چاہی ،حضرت عثمان نے بھی