تذکیرات جمعہ |
|
حضرت ابو بکر صدیقکی حضور کے لئے بے چینی : حضرت عمر نے کہا کہ جب آپ مکۂ مکرمہ سے ہجرت کے لئے نکلے تو ابو بکر بھی آپ کے ساتھ تھے،کبھی وہ آپ کے آگے چلتے،کبھی پیچھے چلتے،کبھی دائیں چلتے تو کبھی بائیں چلتے،آپ نے کہا: ’’مَا هٰذَا يَا اَبَا بَكْرٍ مَا اَعْرَفُ هٰذَا مِنْ فِعْلِكَ‘‘ ’’ اے ابو بکر یہ کیا ہے؟تمہارے عمل کا مطلب میں نہیں سمجھا‘‘ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول!کبھی مجھے راستہ کا خیال آتا ہے تو آپ کے آگے چلتا ہوں اور جب آپ کی فکر ہوتی ہےتو آپ کے دائیں،بائیں اور پیچھے چلتا ہوں،پھر جب آپ چلتے چلتے تھک گئے تو انگلیوں کے اطراف پر چلنے لگے یہاں تک کہ وہ ِگھس گئے۔تکلیف پہلے مجھے پہنچے : حضرت ابو بکر صدیق نے جب یہ دیکھا تو آپ کو اپنے کاندھوں پر اٹھالیا،یہاں تک کہ جب غار کے منھ پر آئے تو آپ کو اتار دیا،اس کے بعد کہنے لگے : ’’وَالَّذِیْ بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تَدْخُلْهُ حَتّٰى اَدْخُلَهٗ فَاِنْ كَانَ فِيْهِ شَيْءٌيَبْدَاُ بِيْ قَبْلَكَ‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دےکر بھیجا آپ میرے داخل ہونے سے پہلے مت داخل ہوئیے،اگر اس میں کوئی چیز ہو جو نقصان دہ ہو تو وہ آپ سے پہلے مجھ تک پہنچ جائے، جب غار میں داخل ہوئے اور ڈراور خوف نہ رہا تو آپ کو اٹھایا اور غار میں داخل ہوئے۔حضرت ابو بکر صدیقکے لئے معیتِ الٰہی کا پروانہ : اس غارمیں ایک سوراخ تھا،جس میں سانپ تھے،جب ابو بکر صدیق نے اس کو دیکھاتو اپنی ایڑی وہاں رکھ دی، سانپ نے ابوبکر کو ڈس دیا،تکلیف کی شدت کی وجہ سے حضرت ابوبکر کے آنسو نکل کر بہنے لگے تو نبینے ارشاد فرمایا: ’’لَا تَحْزَنْ يَا اَبَا بَكْرٍ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‘‘ (منھاج السنۃ النبویۃ:4؍۷۹)