تذکیرات جمعہ |
|
دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں،آواز بلند ہوجاتی،اورغضب شدید ہوجاتا ،اور ایسا محسوس ہوتا جیساکہ آپ لشکر سے لوگوں کو ڈرا رہے ہوں۔اور آپ خطبہ میں تحمید اور ثنا اور تشہد کے بعد یہ ارشاد فرماتے’’اِنَّ اَصْدَقَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللّٰهِ وَ اَحْسَنَ الْهَدْىِ هَدْىُ مُحَمَّدٍ(ﷺ) وَ شَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ‘‘(صحیح ابن خزیمۃ:کتاب الجمعۃ،۱۷۸۵) (۱۲)آپدو خطبے دیتے اور دونوں خطبوں کے درمیان میں خفیف سا قعود فرماتے۔(۱۳) آپ خطبہ مختصر دیتے تھے اور نماز اس کی بنسبت طویل ادا فرماتے تھے۔(۱۴) دورانِ خطبہ کوئی امر و نہی کی بات پیش آتی تو اس کی تعلیم کرتے۔ (۱۵) دوسرے خطبے کے بعد حضرت بلال اذان دیتے اور آپ لوگوں کو قریب ہونے اور خاموش ہونےکا حکم فرماتے۔(زاد المعاد:۱؍۴۹)اور خطبے کے کلمات مختلف روایات میں مختلف الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ مروی ہیں۔خطبہ کے ارکان : خطبہ میں سب سے اہم چیزخطبہ کے ارکان ہیں،جن کے بغیر خطبہ صحیح نہیں ہوتا، علماء نے لکھا ہے کہ خطبہ کے دو ارکان ہیں: أَمَّا الْخُطْبَةُ فَتَشْتَمِلُ علىٰ فَرْضٍ وَسُنَّةٍ فَأَمَّا الْفَرْضُ فَشَيْئَانِ الْوَقْتُ وَذِكْرُ اللّٰهِ تَعَالٰى۔ (البحر الرائق:۲؍۱۵۹،و فتاویٰ ہندیہ:۱؍۱۴۶) (۱)وقت کا ہونا،اور اس کا وقت زوال کے بعد ہے،اس سے پہلے خطبہ دینا جائز نہیں ہے۔اور نہ دینے سے وہ ادا ہوگا۔ (۲)خطبہ میں اللہ کی حمد، تسبیح، تہلیل اور بڑائی بیان کرنا۔اور اس کی کم از کم مقدار ایک مرتبہ الحمد للہ،سبحان اللہ ،یا لاالہ الا اللہ کہنا ہے،لیکن تین آیات کی مقدار سے کم خطبہ دینا مکروہ ہے۔اور امام محمد اور امام ابویوسففرماتے ہیں کہ خطبہ کی کم از کم مقدار تشہد کے بقدر ہے،اس سےکم مقدار میں خطبہ دینا مکروہ ہے۔(البحر الرائق:۲؍۱۶۱)