تذکیرات جمعہ |
|
اس آیت میں اللہ پاک نے بعض صحابۂ کرام پر تنبیہ فرمائی ہے،اس کا واقعہ یہ تھاکہ پہلےنبی کریم خطبۂ جمعہ نماز جمعہ کے بعد دیا کرتے تھے، جیسا کہ عیدین میں آج تک یہی معمول ہے ، ایک جمعہ یہ واقعہ پیش آیا کہ آپنماز جمعہ سے فارغ ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ کے بازار میں پہنچا اور طبلہ وغیرہ کے ذریعہ شور کرنے لگا،یہ تجارتی قافلہ دحیہ بن خلیفہ کلبی کا تھا،جو ملک شام سے آیا تھا،اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مدینہ میں ضروری اشیاءکی کمی تھی،(تفسیرطبری:۲۳؍۳۸۷)اور نبی خطبہ دے رہے تھے،اورسب اس وقت نمازِ جمعہ سے فارغ ہو چکے تھے،اس تجارتی قافلہ کو دیکھ کر بہت سے صحابہ بازار چلے گئے اور آپ کے ساتھ تھوڑے سے صحابہ رہ گئے،مفسرین نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد بارہ تھی،اور بعض رویات میں ان کی تعداد کم وبیش بھی مروی ہے۔(تفسیر قرطبی:۱۸؍۹۷)اگر نبی تنہا ہو جاتے تو مدینہ پر عذاب آ جاتا : جب تقریبا صحابہ چلے گئے اور نبی اور چند صحابہ رہ گئےتورسول اللہ نے اس موقع پر فرمایا :’’وَالَّذِیْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ،لَوْ تَتَابَعْتُمْ حَتىّٰ لَمْ يَبْقَ مِنْكُمْ اَحَدٌ لَسَالَ بِكُمُ الْوَادِیْ نَارًا‘‘(تفسیر ابن کثیر:۸؍۱۲۴) ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم سب کے سب چلے جاتے تو مدینہ کی ساری وادی( عذاب کی) آگ سے بھر جاتی‘‘لغزش کے اسباب : یہاں سوال ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام اللہ کے نبی کو چھوڑ کر کیسے چلے گئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو نمازِ فرض ادا ہو چکی تھی ،اور خطبہ کے متعلق بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ بھی فرض کا جز ہےاور ضروری ہے ، (تفسیر قرطبی:۱۸؍۹۷)نیز وہ وقت تنگی اور قحط سالی کا تھا،اور پھر لوگوں کا اس قافلہ پر متوجہ ہونے اور چیزوں کے خریدنے سے ایک بشری خیال اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت کے پوری کرنے کا ان کے ذہن میں آیا،اس لئے اس تقاضے کی تکمیل کے لئے وہ نکلے،