تذکیرات جمعہ |
|
’’وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُوْنَ، اِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلصُّمُّ ٱلْبُكْمُ ٱلَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ‘‘(الانفال:۲۱) ’’اور(اے ایمان والو) تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم نے سن لیا حالانکہ وہ سنتے سناتے کچھ نہیں ۔بےشک بدترین خلائق الله کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ ذرا نہیں سمجھتے‘‘ اس آیت میں بتایاگیا کہ وہ لوگ سننے کا دعویٰ تو کرتے ہیں،لیکن جو سننے کا مقصدہےیعنی عمل کرنا وہ ان میں نہیں ہے اس لئے ان کا سننا بھی بے فائدہ اور بے کار ہے۔بے عمل کو قیامت میں افسوس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں : اگر عمل نہ ہو تو کل قیامت میں سوائے افسوس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوگا،قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کا وہ قول نقل کیا ہے جو قیامت میں وہ کہیں گے: ’’ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ أَصْحَابِ السَّعِيْرِ‘‘ ’’ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو نہ ہوتے دوزخ والوں میں‘‘ لیکن وہاں افسوس کا کیا فائدہ؟اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایاکہ سننے کے بعداگر آدمی نہ سمجھے اور عمل نہ کرےتووہ بہرا،گونگااوربدترین ہے،اورظاہر ہےکہ یہاں بہرے ہونے سے فزیکلی بہرا ہونا مراد نہیں ہے،کیونکہ بہرا اس کو کہتے ہیں جس کو سنائی نہ دے،اوریہاں ایسا نہیں ہے،اس لئےیہاں بہرے سے مراد بات کو سن کراس کو قبول نہ کرنااور اس کا اثر نہ لینا مراد ہے،مثلاآپ نےاپنے بچے سے کوئی کام کہا،اور اس نے اس کو نہیں کیا،تو سب اس کو یہی کہتے ہیں کہ یہ بات ہی نہیں سنتا،حالانکہ وہ توسنتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا،اس لئے کہتے ہیں کہ یہ سنتا ہی نہیں،پتہ چلاکہ سننے کے بعد اس کا اثرلینا اور اس کو قبول کرنا اوراس پرعمل کرناضروری ہے،اور سناتے ہیں اسی مقصد کے لئےتاکہ اس پر عمل کیا جاسکے،اوروعظ و نصیحت اسی مقصد سے کرتے ہیں تاکہ اس کا اثر قبول کرکے اس کے مطابق چل سکے،اس لئے سننے کے