تذکیرات جمعہ |
|
خطبہ صحتِ جمعہ کے شرائط میں سے کیوں ہے؟ چوتھی بات یہ ہے کہ خطبہ صحتِ جمعہ کے شرائط میں سے ہے،اگر خطبہ نہ دیاجائے تو جمعہ صحیح نہیں ہوگا،نیز نماز کی طرح اس کا قبل از وقت دینا بھی صحیح نہیں ہے،اگر کوئی وقت سے قبل خطبہ دیدے تو اس کا اعادہ بھی ضروری ہے۔ (البحر الرائق:۲؍۱۵۸) اگر مقصود وعظ ہوتا تو اعادہ کی ضرورت کیوں ہے؟اگر مقصود وعظ ہے تو وقت سے پہلے دینا کیوں ناجائز ہے؟اگر مقصود وعظ ہے تو حاضرین اگر سورہے ہیں تب بھی خطبہ کیوں اداہوجاتا ہے؟اس سے پتہ چلاکہ خطبہ کا مقصودِ اصلی ذکر اللہ ہے۔خطبہ کے ارکان ،شرائط، مستحبات اورمسنونات کیوں ہیں؟ پانچویں بات یہ ہے کہ ابتداء میں خطبہ کے ارکان،شرائط،سنن،مستحبات،اور مکروہات وغیرہ بیان کئے گئے ہیں،جو اس بات کو بتلاتے ہیں کہ خطبہ کامقصدِ اصلی وعظ و تذکیر نہیں ہے،بلکہ اس کا مقصدِ اصلی ذکر اللہ ہے،یہ اوربات ہے کہ خطبہ میں وعظ و تذکیر ہونی چاہیے،اور آپاس کا لحاظ فرماتے تھے،لیکن وہ خطبہ کی حقیقت اورخطبہ کا رکن نہیں ہے۔غرض اس تفصیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خطبہ کا حقیقی مقصد ذکر اللہ ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ثابت گیا کہ آپ اور صحابہ کرام نے ہمیشہ خطبہ عربی ہی میں دیا ہے،کسی ملک یا کسی قبیلہ کے لوگوں کے لئے کسی اور زبان میں خطبہ دینے کا ذکرموجود نہیں،اگر چہ کہ سامعین میں عجمی بھی ہوتے تھے،لیکن پھر بھی کبھی دوسری زبان میں خطبہ دینا ثابت نہیں ہے،اس لئے خطبۂ جمعہ صرف عربی ہی میں دینا جائز ہوگا،کسی اور زبان میں دینا جائز نہیں ہوگا۔اور یہ کہنا کہ افہام و تفہیم اوروعظ و تذکیر اس کا مقصد ہے،اور لوگ عربی زبان نہیں جانتے،جس کی وجہ سے خطبہ کا مقصد فوت ہورہا ہے،اس لئے خطبہ کسی اور زبان میں دینے کی گنجائش ہوگی،یہ غلط ہے۔کیا اذان کسی دوسری زبان میں دی جاسکتی ہے؟ چھٹی بات یہ ہے کہ ان کا یہ مدعیٰ اٹھانا بھی جہالت پر مبنی ہے،جیسے اگر کوئی کہے کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لئے بلانا ہے،اور لوگ اذان کا ترجمہ نہیں جانتے،اس لئے اذان کا ترجمہ