تذکیرات جمعہ |
|
سالہ خلافت کو دیکھ کر آپ کو عمرِ ثانی کہاجانے لگا،اور آپ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ سے تعبیر کیاجانے لگا،اور امام مالکآپ کی خلافت کو حضرت ابو بکر صدیقاورحضرت عمر کی خلافت کی طرح قرار دیتے تھے،(التاریخ الاوسط للبخاری:۳؍۷۱)اور آپ کا عدل و انصاف ایساتھا کہ آپ کے زمانے میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے،محمد ابن عیینہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی بکریوں کو حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت میں جہاں چرواتے تھے وہاں بھیڑیے اور درندے بھی چرتے تھے ،حتی کہ ایک دن ایک وحشی جانور نے ایک بکری پر حملہ کردیاتو ہم نے کہا:’’مَا اَرَى الرَّجُلَ الصَّالِحَ إِلاَّ قَدْ هَلَكَ‘‘ کہ ایسا لگتا ہے کہ اس نیک آدمی کا آج انتقال ہوگیا،(الطبقات الکبریٰ:۵؍۳۸۷) اور ان کے زمانے میں زکوۃ کی ادائیگی اور غرباء کو ان کا حق دینے اور ان میں مال کی تقسیم کا ایسا نظام تھا کہ اس زمانے میں زکوۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ اوریہ تعریف شاعروں کی طرح مبالغہ آمیز نہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہے۔حضرت عمر بن عبد العزیز کے بارے میں علماء و محدثین کے اقوال : امام مالک نے آپ کے بارے میں کہا:’’ھُوَاِمَامُ الْھُدیٰ وَاَنَا اَقْتَدِیْ بِہٖ‘‘(کتاب المدخل:۲؍۷۵) ’’وہ امام الہدی ہیں اور میں ان کی اقتداء کرتا ہوں‘‘ میمون بن مہران آپ کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ كَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ مُعَلِّمَ الْعُلَمَاءِ ‘‘(التعدیل والتجریح لمن خرج لہ البخاری فی الجامع الصحیح:۳؍۹۴۱) ’’عمر بن عبد العزیز علماء کے استاذ ہیں‘‘ سفیان ثورینے آپ کے بارے میں کہا: ’’ اَلْخُلَفَاءُ خَمْسَةٌ : اَبُوْ بَكْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ‘‘(سنن ابی داؤد:کتاب السنۃ:۴۶۳۳) ’’خلفاء پانچ گزرے ہیں،ابو بکر،عمر،عثمان،علی اور عمر بن عبد العزیز‘‘ ایک اور جگہ سفیان ثوری سے منقول ہے: ’’ كَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ مِنْ اَئِمَّةِ الْهُدىٰ‘‘(مقدمۃ الجرح والتعدیل:لابن ابی حاتم:۱؍۴۸)