تذکیرات جمعہ |
|
جب خود آپ سے اس کی اصل ثابت ہے اور جس مقصد کے پیش نظر آپ حضرت عبد اللہ بن زید کو تلقی کا حکم دیتے تھے،اس مقصدکے پیش نظر حضرت عثمان نے باضابطہ اذان اول کی ابتداء کی تو کیسے یہ بدعت ہوگی؟اذانِ اول خلیفۂ راشدحضرت عثمان غنیکی سنت ہے : اس کے علاوہ یہ خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنی کی سنت ہے،اور خلفاء کی سنتوں کے بارے میں نبینے فرمایا: ’’عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِىْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّيْنَ الرَّاشِدِيْنَ تَمَسَّكُوْا بِهَا وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ‘‘ (سنن ابی داؤد: کتاب السنۃ: ۴۶۰۹) تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنت کو لازم پکڑلو،اور اس کو تھام لو،اور ڈاڑھوں کے ذریعہ اس کو مضبوط پکڑ لو۔ اس حدیث کی رو سے اس اذان کا اضافہ خلفاءِ راشدین کی سنت میں بھی شامل ہے،جس کو مضبوطی سے لازم پکڑنے کا حکم ہے،اس لئے یہ بدعت نہیں بلکہ اجماعِ صحابہ اور خلیفۂ راشد کی سنت ہے،اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔یہ چند باتیں تونداءِ صلاۃ یعنی اذان سے متعلق تھیں،اس کے بعد اللہ پاک فرماتے ہیں:جمعہ کیلئے وقار اور اطمینان سے جائیں : ’’فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہ‘‘یعنی اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو،سعی کے معنی دوڑنے کے آتے ہیں،لیکن یہاں حقیقت میں دوڑنا مراد نہیں ہے،بلکہ وقار اور اطمینان کے ساتھ چلنا مراد ہے،کیونکہ ایک حدیث میں نبینے مسجددوڑ کر آنے سے منع کیاہے،اور وقار اور اطمنان کے ساتھ آنے کا حکم دیا۔(روح المعانی:۱؍۹)تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کیوں دوڑنے کا حکم دیا؟اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے امر کی طرف توجہ نہیں دیتا،جو مقصود ہوتا ہے اس کا ذہن اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، ایسے ہی جب جمعہ کے لئے اذان