تذکیرات جمعہ |
|
صلہ رحمی نہ کرنا حق تعالیٰ کے اسمِ مبارک کا پاس و لحاظ نہ کرنا ہے : اللہ پاک نے یہاں ذوی القربیٰ کو خاص طور پر ان کے حقوق دینے کا ذکر کیا،کیونکہ ان کےحقوق زیادہ مؤکد اور زیادہ اہم ہیں،کیونکہ وہ آدمی کے ذوی الارحام ہوتے ہیں،اور رحم اللہ پاک کے اسم مبارک سے مشتق اور نکلاہواہے،اس لئے اللہ پاک نے فرمایاکہ جو اپنے ذوی الارحام کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا،تو گویاوہ میرے اسم مبارک کا پاس و لحاظ کرے گا ،اس لئےمیں بھی اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں گا،اور جو قطع تعلق کرےگا اور صلہ رحمی نہیں کرے گا تو گویا وہ میرے اسم مبارک کا پاس و لحاظ بھی نہیں کرے گا ،اس لئےمیں بھی اس کے ساتھ قطعِ تعلق کرلوں گا۔ (تفسیر قرطبی:۱۰؍۱۴۷وفتح القدیر:۴؍۴۵۵) گویا صلہ رحمی نہ کرنے والے اور قطعِ تعلق کرنے والےکے دل میں اللہ پاک کے اسم مبارک کی قدر نہیں ہوتی،اور گویا یہ اللہ پاک کے اسم مبارک کی عظمت دل میں نہ ہونے کی دلیل ہے۔رشتہ داروں کے کیا حقوق ہیں : اب سوال یہ ہے کہ ان رشتہ داروں کےساتھ صلہ رحمی میں اور ان کے حقوق میں کیا کیا چیزیں ہیں تویاد رکھیں کہ ایک تو ان محارم کا نفقہ ہے جو کمائی پر قادر نہیں ہیں،یا وصیت اور وراثت کےمطابق ان کا حق ادا کرنا ہے، یا ان کے ساتھ صلہ رحمی اور حسنِ معاشرت یا کسی بھی طرح ان کی مدد کرنا مراد ہے ۔(روح المعانی:۱۰؍۴۳۵وتفسیرِقرطبی:۱۰؍۲۱۷)صلہ رحمی کا ادنی درجہ : اور اس کا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ سلام اور خیر خیریت کا تعلق رکھاجائے،قاضی ثناء اللہ پانی پتینے لکھا ہے: ’’وَاَقَلُّهٗ اَلتَّسْلِيْمُ واِرْسَالُ السَّلَامِ اَوِ الْمَكْتُوْبِ وَلَا تَوْقِيْتَ فِيْهَا فِى الشَّرْعِِ بَلِ الْعِبْرَةُ بِالْعُرْفِ وَالْعَادَةِ كَمَا فِىْ شَرْحِ الطَّرِيْقِ‘‘(تفسیر حقی:۷؍۸۴)