تذکیرات جمعہ |
|
’’ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللَّهِ الَّتِيْ أَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ‘‘(الاعراف:۳۲) ’’آپ فرمائیے کہ الله تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے کپڑوں کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے‘‘ یہ چیزیں ہم نے حلال کی ہیں،تم کون ہو جو ان کو حرام کردو،کھاؤ،پیو،اور عمدہ لباس پہنو،لیکن اس میں اسراف نہ ہونا چاہئے،اور یہ بھی اسراف میں سے ہے کہ تم کسی چیزکو حلال قراردو اور کسی کو حرام،کیونکہ اس کا اختیار توصرف اللہ کو ہے۔حلال و حرام کا اختیار نبی کو بھی نہیں : حتیٰ کہ اللہ پاک نےیہ اختیار نبی کو بھی نہیں دیا ہے کہ وہ جس کو چاہے حلال قرار دیں،اور جس کو چاہے حرام قرار دیں،پیغمبر جس چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تھے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا تھا ، نبی صرف ترجمانی فرماتے تھے، شارع اللہ ہی ہوتے ہیں، اسی لئے قرآن پاک میں اللہ پاک نےنبی کے بارے میں فرمایا: ’’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ‘‘(التحریم:۱) ’’اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے آپ (قسم کھا کر ) اسکو (اپنے اوپر) کیوں حرام فرماتے ہیں؟ (پھر وہ بھی اپنی بیبیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ) اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘آپ کی قسم کا واقعہ : اس آیت کے نزول کا واقعہ یہ ہے،حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد آپ سب ازواجِ مطہرات کے پاس تشریف لےجاتے تھے۔ ایک روز حضرت زینب کے پاس معمول سے زیادہ ٹہرگئے، اور شہد نوش فرمایاتو مجھ کو رشک آیا اور میں نے حفصہ سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس آپ تشریف لاویں تووہ یوں کہے کہ اے اللہ کے رسول!کیاآپ نے مغافیر نوش فرمایا ہے؟ مغافیر ایک خاص قسم کا گوند ہوتاہے