تذکیرات جمعہ |
|
’’جو آپ کو جس وقت کہ آپ (نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہیں اور (نیز نماز شروع کرنے کے بعد نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست کو دیکھتا ہے‘‘ ’’وَمَا تَكُوْنُ فِیْ شَأْنٍ وَمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّاعَلَيْكُمْ شُهُوْدًا إِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ‘‘(یونس:۶۱) ’’اور آپ (خواہ) کسی حال میں ہوں اور من جملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور (اسی طرح اور لوگ بھی جتنے ہوں) تم جو کام بھی کرتے ہو ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اس کام کو کرنا شروع کرتے ہو اور آپ کے رب (کے علم) سے کوئی چیز ذرہ برابر بھی غائب نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں (بلکہ سب اس کے علم میں حاضر ہیں)حدیثِ جبرئیل اور احسان سے متعلق ایک غلط فہمی : بعض لوگ اس حدیث کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ اس میں احسان کے حصول کا طریقہ بیان کیا گیا ہےکہ آدمی کو اگر احسان پیدا کرنا ہے تو یہ تصور اور یہ کیفیت اپنے اندر پیدا کرے کہ وہ حق تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے،اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا تصور کرلے کہ حق تعالیٰ اسے دیکھ رہے ہیں ،جب کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے،حدیث میں احسان کے حصول کا طریقہ نہیں بتایاگیا بلکہ اس میں عینِ احسان کو بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کے اعمال اور عبادات میں یہ کیفیت پیداہوجانا احسان ہے ،اوراسے اپنی عبادات اور اعمال میں حق تعالٰی کا مشاہدہ یا کم از کم حق تعالیٰ کے اسے دیکھنے کا دھیان نصیب ہوجانا احسان ہے۔جانوروں میں بھی احسان مطلوب ہے : غرض احسان اس کو بھی کہتے ہیں کہ مامورات کو بجالایاجائے، اور احسان میں یہ بھی داخل ہے کہ ان مامورات میں وہ کیفیت پیدا کی جائے جو حدیث میں مطلوب ہے،اوراحسان میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی کے ساتھ حسن سلو ک اور خیرخواہی کی جائے،اور یہ حسن سلوک صرف