تذکیرات جمعہ |
|
سنتوں کے ضمن میں تحیۃ المسجد کی دائیگی : اور اگر کوئی مسجد میں داخل ہوتے ہی فرائض میں یا سنن میں مشغول ہوجائےتو فرائض اور سنن کے ساتھ اس کی تحیۃ المسجدبھی ادا ہوجائے گی،اور وہ دونوں ایک دوسرے میں داخل ہوجائیں گی،کیونکہ نوافل کی خصوصیت یہ ہیکہ وہ دوسری چیزوں میں شامل ہو جاتی ہیں،اور تحیۃ المسجد بھی نوافل میں سے ہے،اس لئے وہ بھی دوسری سنتوں کے ضمن میں ادا ہوجائے گی،کیونکہ تحیۃ المسجد سے مقصود مسجد اور باری تعالیٰ کی تعظیم ہے اور آدمی کےمسجد میں داخل ہوکر فرائض یا سنن میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے تعظیم پائی گئی،اس لئے تحیۃ المسجد بھی ساتھ ہی ساتھ اداہوجائے گی۔(بدائع الصنائع:۱؍۱۹۰۔و رد المحتار:باب الوتر والنوافل،۵؍۱۵۹)(واضح رہے کہ اصطلاح میں نوافل اور سنتوں میں فرق نہیں ہے بلکہ سنتوں پر بھی نفل کا اطلاق ہوتا ہے،اس لئے تحیۃ المسجد پر بھی نفل کا اطلاق صحیح ہے)کیونکہ احناف کہتے ہیں کہ یہ واجبات میں سے نہیں ہے،بلکہ سنن میں سے ہے،حصولِ فضیلت کے لئے ہے،اور اسی وجہ سے اس کو مکروہ اوقات جیسے عصر یا فجر کے بعد یاجمعہ کے بعد پڑھنے کی اجازت نہیں ہے،اگر یہ مستقلاً واجب ہوتی تو پھر ان اوقات میں بھی اسے پڑھنا ضروری ہوتا،معلوم ہواکہ یہ واجب نہیں ہے،بلکہ سنت ہے۔(البحر الرائق:کتاب الصلاۃ:۱؍۲۶۵)اس لئے یہ سنتوں کے ضمن میں بھی ادا ہوجائے گی۔تحیۃ المسجد کا بدل : ایک مسئلہ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ بعض دفعہ آدمی ایسے موقع پر مسجد میں داخل ہوتا ہےکہ اسے تحیۃ المسجد ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا،جماعت کھڑے ہونے کا وقت بالکل قریب ہوتا ہے،یا آدمی کوبھول ہوجاتی ہے،یا فجر یا عصر کےبعد وہ مسجد میں داخل ہوتا ہےتواس موقع پر کیا کرنا چاہئے،آیا ان کو چھوڑدیاجائے،یا اس کا کوئی نعم البدل بھی ہے؟علماء نے لکھا ہے کہ اس موقع پر آدمی درودشریف،تسبیح، تحمید ،اورتکبیر چار مرتبہ کہہ لے، انشاء اللہ اس سے تحیۃ المسجد کا حق ادا ہوجا ئے گا اور اس کا ثواب مل جائےگا۔علامہ شامی نے لکھا ہے :