تذکیرات جمعہ |
|
’’إِنَّ ٱلنَّفْسَ لَأَمَّارَةٌۢ بِٱلسُّوْٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ إِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌرَّحِيْمٌ ‘‘(یوسف:۵۳) ’’ (کیونکہ) نفس تو (ہر ایک کا) بری ہی بات بتلاتا ہے بجز (اس نفس کے) جس پر میرا رب رحم کرے،بلا شبہ میرا رب بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے ‘‘ عجیب بات ہے کہ اسی نفس کی وجہ سے ہی انسان ترقی کرتا ہے،یہی تقویٰ کا حمام ہے، یہی تقویٰ کو گرم کرنے والا ہے، یہی فرشتوں سے آگے بڑھانے والا ہے ، اسی کے ذریعہ آدمی آگے بڑھتا چلاجاتاہے، اگر نفس ہی نہ ہوتاتو ہم میں اور فرشتوں میں کیا فرق ہوتا؟ ہمیشہ ہم بھی نماز ہی پڑھتے رہتے،چونکہ فرشتوں کے پاس نفس نہیں ہے،کوئی ان کو بہکانے والا نہیں ہے،کوئی ان کو گمراہ کرنے والا نہیں ہے،اس لئےسالہا سال سے وہ تسبیح پڑھ رہے ہیں،نماز پڑھ رہے ہیں، ہرفرشتہ ایک خاص عبادت میں لگاہوا ہے، اور قیامت تک رہے گا،لیکن انسان کے ساتھ نفس بھی لگا ہوا ہے،اور شیطان بھی لگا ہوا ہے،جو اس کو برائی کا حکم دیتے ہیں،وسوسے ڈالتے رہتے ہیں،جس کی وجہ سے وہ بھلائی سے دور ہوجاتا ہے،اگر وہ ان وساوس کی طرف توجہ نہ دے،اور ان کے پھسلاوے میں نہ آئے اور ان پر کنٹرول کرے اور شریعت پر چلتا رہے تو اس کا مقام اور مرتبہ بھی فرشتوں سے بڑھ جاتا ہے۔اللہ کے ہاں وہ مقرب ہوتا رہتا ہے، رمضان کے روزے اللہ پاک نے اس نفس کو قابو میں کرنے کے لئے ہی دئیے ہیں،اس نفس میں خوفِ خدا پیدا کرنے کے لئے دئےہیں۔ ’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ‘‘(البقرۃ:۱۸۳) اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کئے گئے تھے اس توقع پر کہ تم (ان کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ ۔عید وعید سے بچنے کا نام ہے : غرض میرے دوستو!عید نئے کپڑے پہننے کا نام نہیں ہے،بلکہ عیدوعید سے بچ جانے کا نام ہے،ایک حدیث میں نبینے ارشاد فرمایا: