تذکیرات جمعہ |
|
خطبۂ ثانیہ کا خلاصہ : پھر اس کے بعد دوسرا خطبہ دیاجاتا ہے،اس میں وہی مسنون خطبہ پڑھاجاتا ہے،اس کے بعدنبیپردرود ِ مبارکہ بھیجا جاتا ہے،پھرحضرات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بالخصوص خلفاءِ راشدین اور اہل بیت، حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرات حسنین، آپ کے چچا حضرت عباس اور حضرت حمزہ اور دیگر عشرۂ مبشرہ کے فضائل بیان کئے جاتے ہیں،اور ان کے حق دعا کی جاتی ہے،اور ان صحابہ کے بارے میں بد گمانی،زبان درازی،طعن و تشنیع سےروکا جاتا ہے،اور ان کے بارے میں زبان درازی کرنے سے اللہ کے عذاب سے اور اللہ کی پکڑ سے ڈرایاجاتا ہے،کیونکہ کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں اور پہلے زمانے میں بھی ایسے تھے جو صحابہ کی شان میں گستاخی کرتے تھے اور آج بھی کرتےہیں،اور بعض جاہل اور بد دین تو بہت ہی زیادہ ان صحابہ کے بارے میں زبان دراز ہوتے ہیں،جب کہ اللہ کے رسول نےان صحابہ کی تربیت فرمائی ہے، ان کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں،اور ان پر اعتمادظاہر کیا ہے،اور ان کی اتباع کا حکم دیا ہے،اور ان سے محبت اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد میں سے ہے،اور ان سے نفرت کرنا یا ان پر طعن و تشنیع کرنا یا ان پر اعتراض اور تنقید کرنا منافقت ہے،اور اللہ اور اس کے رسول سے بغض رکھنے کے مرادف ہے،اس لئے ان کے کچھ مناقب اور فضائل بیان کئے جاتے ہیں،تاکہ ان کی قدر اور اللہ اور اس کے رسول کے ہاں ان کا مقام و مرتبہ لوگوں کی نظروں میں باقی رہے،اور ان صحابہ کی محبت اور عظت دلوں میں باقی رہے، یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ خلفاء راشدین اہلِ بیت سے بھی زیادہ فضیلت والے ہیں، اور ان چاروں میں افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔یعنی ان میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق،ان کے بعد حضرت عمر،ان کے بعد حضرت عثمان اور ان کے بعد حضرت علی ہیں۔صحابہ سے بدگمانی ایمان کے تنزل کا سبب ہے : غرض ان خلفاء کا اور اہل بیت کا ذکر کیاجاتا ہے تاکہ امت کو ان سے بد ظن اور بد گمان اور ان کے بارے میں بد عقیدگی سے بچایاجاسکے۔کیونکہ اگر ہمارا ذہن صحابہ کے بارے میں صحیح نہ