تذکیرات جمعہ |
|
میں خطبوں میں ان خلفاء کا ذکر مناسب بلکہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔اور اس کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔خطبہ میں خلفاء راشدین کے ذکر کی ابتداء کب اور کیوں ہوئی؟ اس کی باضابطہ ابتدا توحضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانے میں انہیں کےحکم سے ہوئی، علامہ سیوطی نےاس کی وجہ یہ نقل کی ہےکہ ایک طرف توبنو امیہ حضرت علی ابن ابی طالب کو خطبوں میں سنہ ۴۱ ہجری سے ۹۹ ہجری یعنی سلیمان بن عبد الملک کے زمانے کے آخر آخر تک برا بھلا کہتے تھے،اور ان کو خلافت کا مستحق ہی نہیں سمجھتے تھے، اور دوسری طرف خوارج حضرت علی اور حضرت عثمانسے متعلق بغض پالنے لگے۔، بلکہ ان کو نعوذ باللہ کافر قرار دینے لگے،اور تیسری طرف ان میں سب سے بد تر اور شر پسندروافض حضرات شیخین ابو بکر صدیق اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کی شان میں گستاخی کرنے لگے، اور حد درجہ آگے برھتے ہوئے حضرات شیخین کو کافر قرار دینے لگے،اور حضرت علی کی شان میں اتنا غلو کرنے لگے کہ ان کو شیخین سے افضل قرار دینے لگے، اورتینوں خلفاء کو برا بھلا کہنے لگے،ان پر تہمتیں اور الزامات لگانے لگے،بلکہ کچھ تو حد کرتے ہوئے حضرت علی کی الوہیت کے قائل ہوگئے، اس لئے جب حضرت عمر بن عبد العزیز کا زمانہ آیا،اور وہ خلیفہ ہوئےتوباضابطہ اپنے اطراف و اکناف میں نائبین اور گورنرس کو یہ تحریرلکھ کر بھیجی کہ خطبہ میں خلفاءِ راشدین کا ذکر کیا جائے، اور اس کے ساتھ بدلہ میں یہ آیت پڑھی جائے:’’اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ‘‘الخ تاکہ جو مختلف باطل فرقےان جلیل القدر خلفاءِ راشدین کے بارے میں کیچڑ اچھال رہے ہیں اور ان کے پاکیزہ نفوس کو مجروح کرنے کی سازش میں ہیں ان کا قلع قمع کیا جاسکے۔ لوگوں میں ان کی وقعت اور عظمت کو برقرار رکھا جاسکے۔ لوگ ان پر لعن طعن اور بد کلامی سے رک جائیں،ان فتنوں کا سد باب ہو،اسلام کی حفاظت ہو،اور آج بھی چونکہ ایسے لوگ ،اور ایسا ذہن