تذکیرات جمعہ |
|
شروع ہوئی ،تو نماز کے لئےدوڑنے کا حکم اور بیع و شراء اور دیگر مشغولیات کو چھوڑنے کا حکم کس اذان سے متعلق ہے؟علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت میں پہلی اذان مراد ہے،اور یہ احکام پہلی اذان ہی کے ساتھ متعلق ہیں،یعنی پہلی اذان سنتے ہی مسجد کی تیاری کرنا ضروری ہے،اور جتنی مصروفیات نماز کے علاوہ ہیں ان کو ترک کرنا ضروری ہے،اور منبر پرجو اذان دی جاتی ہے وہ مراد نہیں ہے،کیونکہ آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے فرمایاکہ جو ندا نماز کے اعلان کے لئے ہواس کے سنتے ہی نماز کے لئے دوڑپڑو،اور پہلی اذان ہی لوگوں کے اعلان کے لئے ہوتی ہے،اس لئے سعی الی اللہ اور دیگراحکام بھی اسی سے متعلق ہوں گے۔اگر آیت میں وہ اذان مراد لی جائےجومنبر کے سامنے دی جاتی ہے تو اس اذان کے بعد لوگوں کا سارے معاملات چھوڑ کر جمعہ کے لئے حاضر ہونا مشکل ہوجائے گا،اور ان کے آنے تک خطبہ کے چھوٹن جائے گا، نیز نماز سے قبل کی جو سنتیں وہ بھی چھوٹ جائیں گی،اس لئے علماء نے لکھا ہے صحیح قول یہی ہے کہ آیت میں پہلی اذان مراد ہے،اس کے سنتے ہی سارے معاملات کو چھوڑ کرجمعہ کی تیاری کرنا ضروری ہوگا۔ (البحر الرائق:باب صلاۃ الجمعۃ:۲؍۱۶۸)اذان اول کی ابتداءکب اور کیوں ہوئی؟ رہی یہ بات کہ حضرت عثمانِ غنینے اس اذان کی ابتداء کیوں کی ؟اور کب کی؟کیا یہ بدعت نہیں ہے؟کیونکہ حضور سے یہ ثابت نہیں ہے،جیساکہ کچھ لوگ کہتے ہیں؟ اس کی مختصر تفصیل اور جواب یہ ہےکہ حضرت عثمان نے اپنے زمانے میں دیکھا کہ منبر کے سامنے جو اذان دی جارہی ہے اس سے اعلان حاصل نہیں ہورہا ہے،آبادی کافی بڑھ گئی ہے، لوگوں تک آواز نہیں پہنچ رہی ہے،اور لوگوں کا مسجد آنا دشوار ہورہا ہےتو حکم دیا کہ باہر مقام زَوراء پراذان دی جائے تاکہ لوگوں تک آواز پہنچ سکے،اور ان کووقت پرنماز اور خطبہ کے لئے آنے میں آسانی ہو،اس پس منظر میں دو اذانیں مشروع ہوئیں۔(صحیح بخاری:کتاب الجمعۃ:۹۱۲ وروح المعانی:۴ ؍ ۲۱)ایک تو منبر پر جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے اورایک لوگوں کے اعلان کے