تذکیرات جمعہ |
|
ہے؟کیا شرعا اس کا کائی ثبوت ہے؟کیا یہ خلاف ِسنت اوربدعت نہیں ہے؟مسئلہ سمجھنے سے پہلےبدعت کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے،جواس سےپہلے کئی بارآپ کو بتائی گئی کہ بدعت ہر نئی چیز یابعد میں پیداشدہ چیز نہیں کہاجاتا ہے،بلکہ بدعت کہتے غیر ثابت کو ثابت اور غیر سنت کو سنت قرار دینا اور اس کو دین کا ضروری حصہ قرار دینا،اگر کوئی ایسا فعل جو حضور یا صحابہ یا تا بعین کے زمانے میں نہیں تھا ، بعد میں لوگوں نے اسے اپنایا، لیکن اسے سنت قرار نہیں دیا اور اسےآپسےثابت نہیں مانا بلکہ وقت کی ضرورت کی وجہ سے یا کسی مصلحت کی وجہ سےاسے کیا جارہا ہے تو وہ بدعت نہیں کہلائے گی،اگر اس کو دین کا حصہ سمجھ رہے ہیں یا آپ سے ثابت مان رہے ہیں یا اس کو سنت سمجھ رہے ہیں تو وہ بدعت ہوگا۔ اس پسِ منظر میں اردو خطبہ کی شرعی حیثیت کو سمجھیں۔عربی خطبہ سے قبل وعظ خلفاءِ راشدین سے ثابت ہے : پہلی بات یہ ہے کہ کیا اس کا ثبوت قرنِ اول میں ہمیں ملتا ہے یا نہیں؟یہ بات تو متعین ہے کہ حضور کے زمانے میں عربی خطبہ ہوتا تھا،کوئی اور وعظ اس سے قبل نہیں ہوتا تھا، لیکن حضرت عمر کے زمانے میں اس کی ابتداء ہوئی۔حضرت ابو ہریرہ کا عمل : حضرت ابوہریرہجمعہ کے دن خطبہ سے پہلے منبر کے پاس کھڑے ہوکر احادیث سنایا کرتے تھے۔ ’’فَاِذَا سَمِعَ حَرَکَۃَ بَابِ الْمَقْصُوْرَۃِ بِخُرُوْجِ الْاِمَامِ جَلَسَ‘‘ پھر جب امام کے نکلنے کی آواز وغیرہ سنتے تو بیٹھ جاتے۔ چنانچہ مستدرکِ حاکم میں محمد بن زید کی یہ روایت ہے،اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم فرماتے ہیں، ’’انما الغرض فیہ استحباب روایۃ الحدیث عند المنبر قبل خروج الامام‘‘(المستدرک علی الصحیحین:کتاب العلم،۳۶۷،تعليق الذهبي قي التلخيص : فيه انقطاع)