تذکیرات جمعہ |
|
’’سُبْحَانَ اللّٰهِ نِصْفُ الْمِيْزَانِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ يَمْلَأُ الْمِيْزَانَ،وَاللّٰهُ اَ كْبَرُ يَمْلاُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ والاَرْضِ‘‘(سنن دارمی:باب ماجاء فی الطہور:۶۷۹) سبحان اللہ آدھا ترازو بھر دیتا ہے،اور الحمد للہ مکمل ترازو بھر دیتا ہے،اور اللہ اکبرآسمان و زمین کے درمیان کو بھر دیتا ہے،دیکھنے میں تین چھوٹےبول ہیں،لیکن ان کاثواب اور اجر کتنا بڑا ہے، چونکہ اس میں وقت نہیں لگتا،محنت نہیں لگتی،کہنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی اس لئے ہمارے پاس اس کی کوئی اہمیت نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہے، اس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں ہے،لیکن اللہ کے ہاں اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ہمارے اعضاء ریموٹ کنٹرول کی طرح ہیں : اس کو ایک حسی مثال سے یوں سمجھو کہ انسان کے جسم کی ایک ایک حرکت ریموٹ کنٹرول کے بٹن کی طرح ہے،جو بہت اسموت ہوتا ہے، چھوٹا سابچہ بھی اس کو دبا سکتا ہے،جب آپ اس کو دبائیں گے توبڑی بڑی مشنریاں چلنے لگتی ہیں،پوری کمپنی اس ایک بٹن کے دبانے سے حرکت میں آجاتی ہے،بچہ بھی اگر چاہے تو اس کو آن کرسکتا ہے، ہمارے جسم میں بھی یہ بٹن لگے ہوئے ہیں، ہماری آنکھ، ہماری زبان، ہمارے ہاتھ، ہمارے پیر ہمارا دل، ہمارا دماغ یہ سب بٹن ہیں، ان کاکام بہت ہلکا ہوتا ہے،لیکن نتیجہ اورثمرہ بڑا ہوتا ہے،زبان کے بارے میں عربی زبان کا ایک مقولہ ہے،’’جِرْمُہٗ صَغِیْرٌ،جُرْمُہٗ کَبِیْرٌ‘‘اس کی جسامت بہت چھوٹی ہوتی ہے لیکن اس کا جُرْم بڑا ہوتاہے، اسی طرح ذکر اللہ بھی ہے،بس زبان سے اداکرنا ہے،کہنے میں بھی آسان ہے،اوراس کوادا کرنے میں کوئی دقت اور مشکل بھی نہیں ہوتی،لیکن اس کا ثواب بے انتہاءہے۔ اس لئےاللہ کاذکر کثرت سے کرتے رہنا چاہیئے، بیٹھے ہوئے بھی، لیٹے ہوئے بھی،جلوت میں بھی،اورخلوت میں بھی،چلتے پھرتے بھی اور کام کاج کرتے ہوئے بھی،جیساکہ صحابہ کے بارے میں اس سے قبل ایک جمعہ میں ذکر آیاتھا کہ بیع،تجارت و ملازمت اور دنیوی امور میں مشغولیت ان کو ذکر اللہ سے غافل نہیں کرتی تھی: