تذکیرات جمعہ |
|
ہوجائے تو عصر بھی پڑھ لی جائے،اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے،اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی،اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگئی۔ لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں۔ آپ نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایاہے۔جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی،جیساکہ تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں: ’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ اِذَا اَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِى السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ‘‘(صحیح مسلم: باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر:۱۶۵۹) ’’میں نے رسول اللہ کودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے‘‘ حضرت انس فرماتے ہیں کہ : ’’ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ -ﷺ- اِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ اَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ اَخَّرَ الظُّهْرَ اِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ‘‘(صحیح مسلم: باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر،۱۶۵۹) رسول اللہ جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر(سواری سے) اترتے،اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے،ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا حقیقتا ًنہیں۔جس کی وضاحت ہم اس سےقبل کرچکے ہیں۔ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے،اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے،اس لئے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا۔تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو،اور ان میں باہم تضاداورٹکراؤ نہ ہو،اللہ پاک مجھے اور آپ کو صحیح علم اور صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)