تذکیرات جمعہ |
لیکن ظاہر ہے کہ اس میں نبی کو چھوڑدینےاور بظاہر دین کے مقابلے میں اور رسول اللہ کے مقابلے میں دنیاکو ترجیح دینے کی لغزش ان سے صادر ہوئی،اس لئے اللہ پاک نے بطورتنبیہ یہ آیت نازل فرمائی،اور نبی نے وعید سنائی کہ اگر سب کے سب چلے جاتے تو اللہ کا عذاب آجاتا،اس کے بعد نبی نے خطبہ دینے میں اپنا طرز بدل دیا،اور پہلے خطبہ دینے لگے اور بعد میں نماز پڑھانے لگے۔(تفسیر قرطبی:۱۸؍۹۷،وتفسیر ابن کثیر:۸؍۱۲۴) غرض اللہ پاک نے آیت مذکورہ میں رسول اللہ کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو بتلادیجئےکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس دنیا کی تجارت اور ملازمت سے بہتر ہے،کیونکہ تھوڑی دیر اپنے کو عبادت میں مشغول رکھنے سے اور تھوڑی دیر تجارت اور ملازمت ترک کردینے سےآخرت کا غیر متناہی اور باقی رہنے والاثواب ملتا ہے،یہ تجارت اور یہ ملازمت تو ختم ہوجائے گی،اس کا نفع عارضی ہے،جو چند دن میں ختم ہوجائے گا،لیکن آخرت کا ثواب ختم ہونے والا نہیں ہے،وہ یقینی ہے،اور یہ غیر یقینی ہے،وہ دائمی ہے،اور یہ فانی ہے،ظاہر ہے کہ دائمی اور یقینی اجر بہتر ہے،اور اس کے حصول کی فکر کرنا سعادت مندی اور عقل مندی کی بات ہے،اس لئے فرمایاکہ آخرت کا اجر اور بدلہ بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی ہے،اور یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ جیسے آخرت میں اس کا اجر ملنے والا ہے،ایسےہی دنیا میں بھی اس کا اجر ملے،اور دنیا میں بھی اللہ پاک کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔یہ چند باتیں اس رکوع کی تفسیر سے متعلق عرض کی گئیں،اللہ پاک ہم سب کو صحیح علم اور عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)