تذکیرات جمعہ |
|
کو ترک کیاہے،کیونکہ جب امام منبر پر جانے کے بعد سلام کرے گا تو سامعین اس کا جواب دیں گے،اور حدیث میں آپنے ارشاد فرمایا،’’اَذَا خَرَجَ الْاِمَامُ فَلَاصَلَاۃَ وَلَا کَلَامَ‘‘(کنز العمال:21212بحوالہ معجم طبرانی)تو امام کا سلام اور سامعین کا جواب اس روایت کے مخالف ہے، کیونکہ یہاں کلام سلام کی شکل میں پایا جارہا ہے،اور آپ نے اس سے روکا ہے۔(اس مضمون سے متعلق کچھ اوراحادیث بیان:’’نماز جمعہ اورخطبہ سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ میں‘‘ ذکر کی جاچکی ہیں) اس روایت پرسندکے اعتبار سے محدثین نے اگرچہ کلام کیا ہے لیکن اس کا مضمون دوسری صحیح روایات سے ثابت ہے۔ (۳)تیسری بات یہ ہے کہ یہاں ایک روایت اباحت اور ایک روایت حرمت اورممانعت کو بتارہی اور اصول یہ ہے کہ جب اباحت اور حرمت کا ٹکراؤ ہوتو حرمت اور ممانعت کو ترجیح دی جاتی ہے اس لئے یہاں سلام نہ کرنے کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ (۴)چوتھی بات یہ ہے کہ علماء نے اس روایت کو منسوخ مانا ہے،ابتداء میں نماز اور خطبہ میں بات کرنے کی ممانعت نہیں تھی،بعد میں جب نماز اور خطبہ میں بات کرنے کی ممانعت نازل ہوئی تو یہ بھی حکم ختم ہوگیا۔ (۳)خطبہ کے لئے جب آپ آتے توآپ کے آگے نہ کوئی عصابر دار ہوتا تھا اور نہ کوئی خاص قسم کا لباس آپ پہنتے تھے۔(۴)خطبہ کچھ تاخیر سے دیتے تاکہ لوگ جمع ہوجائیں۔ (۴)اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر تعوذ فرماتے۔(۵)لوگوں کو پھلاندنے سے روکتے (۶)حضرت بلال اذان دیتے اس کے بعد آپ خطبہ دیتے اور اذان و خطبہ میں فصل نہ ہوتا۔(۷)خطبہ میں کبھی کمان اور کبھی عصا پر سہارا لیتے۔(۸)خطبہ میں آپ اصول اسلام اور احکام شریعت سکھلاتے۔ (۹)حالات کے اعتبار سے خطبہ دیتے۔(۱۰)جب آپ خطبہ