حالات اور مصیبت افزاء واقعات میں بھی ہمیشہ متوکل رہتے تھے اور انجام کی راحت اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم پر منحصر سمجھتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر خدا رحم نہ کرے تو میں بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ آپ اپنے اکلوتے فرزند ابراہیم کی وفات حسرت آیات پر بالکل صابر وشاکر رہے۔
آپ اپنی زندگی کے آخری دن تک خدمت مذہب میں مصروف رہے اور اپنے پیروؤں کو ہدایات دیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے دائمی اور مستقل زاہد کو برا کہنا یا ان پر ریاکاری کا الزام لگانا قطعاً غلط ہے۔ قرآن جس کے ذریعہ حضرت محمدﷺ نے لوگوں کو ہدایت اور نیکی کی طرف بلایا۔ اس کی تعلیم نہایت بلند پایہ اور پاکیزہ ہے۔‘‘
۲… یورپ کا زبردست محقق اور مؤرخ ہربرٹ وائل اپنی کتاب ’’گریٹ ٹیچر‘‘ میں لکھتا ہے۔
’’حضرت مسیح کے چھ سو سال بعد جب کہ حضرت مسیح کا عجیب وغریب اثر مغرب کی طرف منتقل ہوجانے کی وجہ سے شام اور عرب کی اخلاقی حالت نہایت خراب ہورہی تھی۔ عرب جیسے وسیع ملک میں ایک پیغمبر بھیجا گیا۔ جس نے نہ صرف عدل وانصاف اور امن وامان کی حکومت قائم کی۔ بلکہ ہیبت ناک بت پرستی کا بھی قلع قمع کردیا۔ عرب میں عورتوں اور مردوں کو بتوں کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ معمولی مناقشات پر خوفناک لڑائیاں چھڑ جاتی تھیں۔ اخلاقی قباحتیں اور بری عادتیں ’’طبیعت ثانیہ‘‘ ہو گئی تھیں کہ ۲۹؍اگست ۵۷۶ء کو مکہ میں یہ پیغمبر پیدا ہوا۔ اس سے چند روز پیشتر آپ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا اور چند روز بعد آپ کی والدہ بھی فوت ہوگئیں اور اپنے یتم فرزند کو دادا کے سپرد کر گئیں۔ جب یہ یتیم لڑکا بڑا ہوا تو امید کے موافق نہایت خاموش طبع تھا اور گردوپیش کے لوگ اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ اسی زمانہ میں آپ کے دادا بھی انتقال فرماگئے اور محمدؐ کی حفاظت اور پرورش آپ کے چچا ابوطالب کے سپرد کر گئے۔ بچپن اور جوانی کے زمانہ میں آپ کو کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا۔ سوائے اس کے کہ بہ سلسلۂ تجارت آپ کو شام جانا پڑا۔ جہاں آپ اس برے زمانے کے ہر واقعہ کا نہایت عمیق نظروں سے مطالعہ کرتے رہے۔
۲۴برس کی عمر میں آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی۔ جن کی طرف سے آپؐ شام میں تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے تمام معاملات میں آپؐ کو ایسا وفادار، صادق، امین اور کفایت شعار پایا کہ ان دونوں کی ۲۶سالہ گرہستی زندگی دنیا کی شادیوں میں ایک نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ بظاہر آپؐ کی زندگی خاموش تھی۔ لوگ آپؐ کو ’’الامین‘‘ کے لقب سے یاد کیا کرتے