السلام کی۔ اﷲ انصاف دے تو آپ صاف کہیںگے کہ اب معاملہ صاف ہے۔ رہی ضدوکد، ہٹ دھرمی، اس کا علاج نہ کسی طرح ممکن، نہ کبھی ہوا۔ واﷲ الہادی!
عنایت نمبر۱۴: یہ عنایت ہم ان کے اصلی پمفلٹ حقائق قرآن سے نقل کر رہے ہیں۔ میاں اکرام کو یہ یاد نہیں رہی۔ لیکن اس خیال سے کہ شاید اس جواب کے بعد پھر عنایت فرمائیں۔ لہٰذا ان کی اصل سے اس کا شکریہ پیش کردینا حسب موقعہ مناسب متصور ہوا۔ وہو العنایۃ ہذا!
بحکم قران۔ ’’ونفخنا فیہ من روحنا‘‘ مسیح کے اندر ذات الٰہی تھی پس وہ صاحب الوہیت تھے۔ اس لئے ایک گنہگار رسول سے (معاذ اﷲ) مسیح افضل تھے۔
شکریہ: یہاں ونفخنا فیہ میں روحنا کو اٹھا کر پادری صاحب یا مرزائی یا اکرام الحق صاحب بے سوچے سمجھے ایک نیا خداخانہ ساز بنا رہے ہیں۔ ہاں اکرام الحق کو تو اس اعتراض سے بحث ہی نہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ اعتراض ہی نہیں کیا۔ مگر چونکہ حقائق القرآن کی دوورقی میں یہ بھی ہے تو شاید آج نہ کہا تو کل کہہ دیں۔ اس وجہ سے ان کو بھی اس شکریہ میں شریک کیاگیا۔ بہرکیف وہ اس امر کے قائل ہوں یا نہ ہوں۔ مگر ارادہ ضرور ظاہر کیاہے کہ میں عیسائی ہوجاؤںگا۔ لہٰذا وہ بھی اس کے معترف ہونے والے ہوئے۔
اصل میں یہ سراسر غلط فہمی یا بالفاظ دیگر مخالفت قرآنی ہے۔ نفخ کے معنی صاف ہوجانے پر معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ علامہ امام راغب مفروات میں فرماتے ہیں۔ ’’النفخ نفخ الریح فی الشیٔ قال یوم ینفخ فی الصور ونفخ فی الصور۰ ثم نفخ فیہ اخری ذالک نحو قولہ تعالیٰ فاذا نقر فی الناقور۰ ومنہ نفخ الروح فی النشاۃ الاولیٰ ونفخت فیہ من روحی یقال النفخ بطنہ ومنہ استعیر انتفخ النہار اذا رنفخ ونفخۃ الربیع حین اعشب ورجل منفوخ ای سمین‘‘
نفخ سے مراد نفخ ریح ہے۔ کسی شئے میں پھونک مارنا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔ یوم ینفخ فی الصور یعنی جس دن پھونکا جائے، صور اور پھونک دی جائے صور میں اور پھر پھونک دی جائے اس میں دوبارہ اور نفخ اور نقر دونوں ایک معنی رکھتے ہیں۔ فاد انقر یعنی جب پھونکا جائے ناقور یعنی صور اور نفخ روح سے مراد۔ پہلی پیدائش ہے اور نفخت فیہ من روحی کے معنی باعتبار عرف پھولنے اور پھلنے کے بھی ہوسکتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم نے اپنے حکم سے اس لئے کہ