بڑھ کر کیا ثبوت ہوگا کہ وہی مرزاقادیانی جو بقول خود اپنے والد کی وفات کے وقت ’’روٹی کی فکر‘‘ (نزول المسیح ص۱۱۸، خزائن ج۱۸ ص۴۹۶) میں گھلے جاتے تھے۔ لاکھوں کی جائیداد چھوڑ کر مرے۔ مختصر کہ آپ پر لے سرے کے دنیا پرست تھے۔ لہٰذا آپ نبی نہیں ہوسکتے۔ اس کے جواب میں مرزائیوں سے یہ تو نہ ہوسکا کہ مرزاقادیانی کی دولت جمع ہونے کا کوئی شرعی عذر پیش کرتے۔ ہاں یہ جواب دیا کہ: ’’حضرت سلیمان بھی تو بادشاہ تھے۔ نیز نبی کریمﷺ مال غنیمت سے پانچواں حصہ لیتے تھے۔‘‘
جواب ابراہیمی
حضرت سلیمان علیہ السلام نے نبوت کے ذریعہ دولت وحکومت نہیں پیدا کی تھی۔ بلکہ ان کے والد حضرت داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے۔ ان کے وفات پانے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے جانشین ہوئے اور نبی کریمﷺ جو مال غنیمت سے پانچواں حصہ لیتے تھے۔ سو جنگوں کا معاملہ ہے۔ نبیﷺ کی خصوصیت نہیں۔ ہر ایک سپاہی ادنیٰ سے اعلیٰ تک مال غنیمت کا حصہ لیتا تھا۔ نبیﷺ بذات خود جنگ میں کمان افسر ہوتے تھے۔ اس لئے آپ بھی حسب قانون سیاست اپنے حصہ کے حقدار تھے۔ ہاں یہ بھی واضح رہے کہ پانچواں حصہ نبیﷺ اکیلے ہی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ وہ حصہ بیت المال کہلاتا تھا۔ جس میں سے تمام یتیم ومسکین ومسافر بھی کھاتے تھے۔ پڑھو آیت ’’فان اﷲ خمسہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتمیٰ والمساکین وابن السبیل‘‘ یعنی پانچواں حصہ اﷲ ورسول ومسلمانوں کے (کمزور وغریب) قرابت داروں ویتیموں ومسکینوں ومسافروں کے لئے ہے۔ (الانفال)
بھائیو! غور کرو کہ آنحضرتﷺ نہ صرف مسلمانوں کے جن میں بڑے بڑے امراء رئیس تھے۔ روحانی پیشوا تھے۔ بلکہ حاکم وقت بھی اندریں حالات اگر آپ چاہتے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ جمع کرلیتے۔ مگر آپ نے جس طور پر دنیا میں گذارہ کیا وہ ہم اپنے الفاظ میں نہیں۔ مرزا قادیانی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو لکھا ہے: ’’جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو ان دولت واقبال کے دنوں میں (آنحضرتﷺ نے) کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی کوئی یادگار تیار نہ کی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش وعشرت کا تجویز نہ کیاگیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہوکر نہ کھایا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۱۷، خزائن ج۱ ص۱۰۹)
احمدی بھائیو! محمد رسول اﷲﷺ جیسے مقدس رسول سے مرزاقادیانی کی مثال دینے والو! شرم کرو۔ یوم الحساب کو خدا کے روبرو کیا۔ جواب دوگے؟