مرزاقادیانی کی یہ تمام تحریرات بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ براہین احمدیہ میں جو کچھ لکھا گیا وہ مرزائیوں کے لئے بطور الہام وحی الٰہی ہے۔ احمدی دوستو! براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول تمہارے نبی کے مؤلف نے ملہم اور مامور ہوکر بغرض اصلاح تالیف کی۔ دیکھو اشتہار براہین احمدیہ ملحقہ کتاب (آئینہ کمالات ، خزائن ج۵ ص۶۵۷) ہاں یہ کتاب وہ ہے جو بقول مرزاقادیانی کے محمد رسول اﷲﷺ کے دربار میں پیش ہوکر رجسٹرڈ بھی ہوگئی تھی۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے۔ ’’منجملہ ان کے ایک وہ خواب ہے جس میں اس عاجز کو جناب خاتم الانبیائﷺ کی زیارت ہوئی تھی۔ اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا۔ قطبی رکھا ہے۔ جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی۔ وہ ایسی کتاب ہے جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے۔ جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۲۴۸،۲۴۹ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۲۷۵)
مرزائی بھائیو! ایمان سے بتلاؤ کہ ایک ایسی کتاب جو باعتقاد تمہارے قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم پھر مستحکم بھی کامل استحکام رکھنے والی جسے اس شخص نے لکھا جو بقول خود رسول اﷲ تھا۔ جو خدا کے ہاتھ میں ایک کٹ پتلی بلکہ مردہ کی طرح تھا اور اس کا ہرقول وفعل خدا کا قول وفعل تھا۔ کیا تمہارا ایمان ہے کہ یہ کتاب بغیر خدا کے مرضی ومنشاء ورضاء حکم کے لکھی گئی؟ العجب ثم العجب!
بھائیو! مرزاقادیانی جسے تم نبی ورسول مانتے ہو وہ تو کہتا ہے۔ انبیاء کے اقوال وافعال سب خدا کے ہوتے ہیں اور تم لوگ برسر منبر ہزاروں انسانوں کی موجودگی میں کہتے ہو بلکہ اس پر اصرار وتکرار کرتے ہو کہ نہیں مرزاقادیانی براہین احمدیہ کے وقت غلطی سے مشرک تھے۔ وہ اس طور سے کہ برابر بارہ برس تک الہام پر الہام ۱؎ ہورہا ہے کہ مسیح موعود تم ہی ہو۔ مگر مرزاقادیانی ایسے مبہوت ہورہے ہیں کہ حضرت مسیح کو زندہ مانتے چلے جاتے ہیں اور اپنی مسیحیت کی خبر تک ہی نہیں۔ آہ! کس قدر حیرانگی ہے کہ ڈینگ تو ان الفاظ میں ماری جاتی ہے کہ: ’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت اور ہردم اور ہرلحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۹۳ حاشیہ، خزائن ج۵ ص۹۳)
مگر حقیقت یہ کھل رہی ہے کہ حضرت کو اپنی نبوت ومسیحیت کی بھی خبر نہیں اور برسوں
۱؎ براہین احمدیہ جو ۱۸۸۰ء میں لکھنی شروع ہوئی سے لے کر ازالہ اوہام وغیرہ ۱۸۹۱ء تک برابر مرزاقادیانی باوجود الہام کے حضرت مسیح کو زندہ مانتے رہے۔ اسی کی طرف مولانا صاحب کا اشارہ ہے۔