آخرمیں مذہب کے پیشواؤں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ اشتہار بازی کے ذریعہ اپنی گمنام ہستی کو لوگوں سے روشناس کرایا۔ جب کچھ چرچا ہوگیا تو صداقت اسلام پر ایک کتاب براہین احمدیہ لکھنی شروع کی۔ اس کے ذریعہ سے سادہ لوح مسلمانوں کی خوب جیبیں خالی کیں اور مجدد، ملہم، محدث ہونے کا دعویٰ کیا۔ جب ان دعاوی پر اچھی طرح قدم جم گئے تو مثیل مسیح پھر مسیح موعود بنے۔ چونکہ احادیث میں مسیح موعود کے لئے نبی کا لفظ موجود ہے۔ اس لئے اس کو ظلی، اعجاز، مثالی، جزوی، ناقص نبوت خود ساختہ اصلاح میں ڈھالا۔
(انجام آتھم ص۲۸، خزائن ج۱۱ ص۲۸، ایام صلح اردو ص۷۵، خزائن ج۱۴ ص۳۰۹)
اس کے بعد تو آپ کے دعاوی نے اس دریا قہار کی صورت اختیار کی۔ جس کا جب بند ٹوٹ جاتا ہے تو ہر اس چیز کو جو اس کے راستہ میں آئے بہا لے جاتا ہے۔ غیر تشریعی نبی، تشریعی نبی، جامع الانبیائ، ظلی خدا، بلکہ سچ مچ خدا، مالک کن فیکون، مختار احیاء اماتت وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہی بن گئے۔ امت محمدیہ کے مسلمہ خود پچانوے کروڑ مسلمانوں کو کافر جہنمی قرار دیا اور اسی پر بس نہ کی بلکہ ہر وہ شخص جو آپ کی تصدیق نہ کرے اس کو حرام زادہ، سؤر، کتا، بدذات، خبیث کا لقب دیاگیا۔ آخر خدائی غیرت نے جلوہ دکھایا۔ اس بڑھتی ہوئی ضال ومضل ہستی کو اجل کی ایک ہی ٹھوکر نے قبر میں جا لٹایا۔ چنانچہ کن فیکون کی ڈینگ مارنے وزندہ کرنے کے اختیارات دھرے کے دھرے ہی رہ گئے اور ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو بمقام لاہور بروز منگل بمرض ہیضہ سوادس بجے دن کے لاکھوں روپیہ کی پیدا کردہ جائیدا کو بنظر حسرت دیکھتے ہوئے بعض اقوال خود کی رو سے بعمر ۵۹سال اپنے افتراؤں کی سزا پانے کو حاکم حقیقی کے دربار میں بلائے گئے۔ متوفی مذکور اپنی زندگی میں اگرچہ بظاہر بڑی ڈینگیں مارا کرتے تھے کہ آؤ مجھ سے مباحثہ ومناظرہ وغیرہ کر لو۔ مگر جب علماء کی طرف سے آمادگی دیکھتے، بھاگ جاتے اور طرح طرح کے حیلوں، بہانوں سے ٹال دیتے۔ چنانچہ ۱۹۰۲ء میں (اعجاز احمدی ص، خزائن ج۱۹ ص۱۰۷) کے اندر مولانا محمد ثناء اﷲ امرتسری کو مباحثہ کی دعوت دی اور ساتھ ہی پیشین گوئی جڑوی کہ وہ قادیان میں نہیں آئیںگے۔ جب مولانا صاحب سرپر جادھمکے اور مناظرہ کے لئے بلایا تو مرزاقادیانی نے بہانہ کردیا کہ میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ علماء سے مناظرہ نہ کروںگا۔
ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائے
مرزاقادیانی نے اپنی تمام عمر میں دوتین ہی مباحثے کئے اور مباہلہ تو ایک ہی کیا۔