ہے۔ یا گذشتہ طاعون کی حکایت ہے۔ جس نے قادیان میں زوردار صفائی پھیری تھی۔ بہرحال ایک ربڑ کا گیند ہے۔ جسے ٹھوکر مار کر ہر طرف لڑھکایا جاسکتا ہے۔
ناظرین کرام! قبل اس کے کہ میں آپ کو یہ بتاؤں کہ مرزاقادیانی کا اس دورخی سہ رخی گولائی سے مطلب کیا تھا۔ آپ کو اس فقرہ کی کچھ تفصیل بتانا چاہتا ہوں۔ یہ شعر لبید بن ربیعۃ العامری کا ہے۔ جو اس کے قصیدہ کا اوّل مصرع ہے۔ جو سبعہ معلقہ کا چوتھا قصیدہ ہے۔ اس کا ترجمہ بالفاظ مرزا یہ ہے۔ ’’میرے پیاروں کے گھر منہدم ہوگئے۔ ان عمارتوں کا نام ونشان نہ رہا۔ جو عارضی سکونت کی عمارتیں تھیں اور نہ وہ عمارتیں رہیں۔ جو مستقل سکونت کی عمارتیں تھیں۔‘‘
ادھر ہمارے پنجابی مسیح قادیانی نبی نے اسے اپنا الہام بناکرشائع کردیا۔ بہرحال اس ’’الہام‘‘ میں طاعون کا کوئی ذکر نہیں۔ (ضمیمہ نصرۃ الحق ص۸۸، خزائن ج۲۱ ص۲۴۸)
مگر مرزاقادیانی نے پنجاب میں طاعون کی رفتار دیکھ کر اسے متعلقہ طاعون ظاہر کیا۔ مطلب یہ کہ اگر آئندہ زمانہ میں مثل سابق پنجاب میں کبھی دوبارہ طاعون کا زور ہوا تو کہہ دیںگے کہ دیکھو! ہم نے پہلے سے ہی اس کی خبر دے رکھی تھی۔ اب کوئی سخت بے حیا ہی ہوگا۔ جو اس صریح واضح اور عظیم الشان فوق العادت پیش گوئی سے منکر ہو اور اگر طاعون نہ پھیلا تو چونکہ اس مصرع میں زمانہ ماضی کا ذکر ہے۔ کہہ دوںگا کہ ان آنکھوں کے اندھوں بدذات علماء کو نظر نہیں آتا کہ الہام میں صاف ماضی کا ذکر ہے۔چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب پنجاب میں طاعون کا تھوڑا سا زور ہوا تو آپ نے جھٹ کہہ دیا کہ: ’’دوستو! خداتعالیٰ آپ کے حال پر رحم کرے۔ آپ صاحبوں کو معلوم ہوگا کہ میں نے آج سے قریباً قریباً نو ماہ پہلے ’’الحکم‘‘ اور ’’البدر‘‘ میں خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع پاکر یہ وحی الٰہی شائع کرائی تھی کہ: ’’عفت الدیار محلہا ومقامہا‘‘ یعنی ملک عذاب الٰہی سے مٹ جانے کو ہے۔ نہ مستقل سکونت کی جگہ رہے گی اور نہ عارضی سکونت کی۔ یعنی طاعون کی وبا ہرجگہ عام طور پر پڑے گی اور سخت پڑے گی۔ دیکھو اخبار الحکم ۳۰؍مئی ۱۹۰۴ء (غلط ہے۔ صحیح ۳۱؍جولائی ۱۹۰۴ء ہے۔ ناقل) نمبر۱۸ ج۸ کالم۳ (جھوٹ ہے کالم نمبر۴ میں ہے۔ ناقل) اور اخبار البدر نمبر۲۰،۲۱ مورخہ ۲۴؍مئی، یکم؍جون ۱۹۰۴ئ۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت بہت قریب آگیا ہے میں نے اس وقت جو آدھی رات کے بعد چار بج چکے ہیں۔ بطور کشف دیکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجیب طرح پر شور قیامت برپا ہے۔ میرے منہ پر یہ الہام الٰہی تھا کہ موتا موتی