ہوئی۔ کیوں وہ سلطان محمد آج تک مثل زہریلے سانپ کے تمہارے سینوں پر لوٹ رہا ہے۔ دیکھنا کہیں لقب سخت بے حیا کے مصداق بن کر اوٹ پٹانگ جواب نہ دینا۔ انصاف کو کام میں لانا۔ اسے جانے دو آؤ میں تمہیں شالامار باغ کا دوسرا تختہ دکھاتا ہوں۔ سنو! اس جگہ مرزاقادیانی نے یہ کہتے ہوئے کہ براہین احمدیہ میں ایسے بہت سے اسرار ہیں جو کھلتے جاتے ہیں۔ اس تشریح کو منجانب اﷲ بتایا ہے اور یوں بھی ان کا عام اصول ہے کہ ہر نبی کا ہر قول وفعل بحکم خدا ہوتا ہے۔ خاص کر جو پیش گوئی مخالفوں کے روبرو پیش کی جاتی ہے۔ ملہم لوگ حضرت احدیت میں توجہ کر کے اس کا انکشاف کرالیتے ہیں۔ پس کیا وجہ ہے کہ اس الہامی انکشاف کے بعد مرزاقادیانی نے اسی الہام کو آسمانی خسر اور اس کے داماد سے ہٹا کر کابل میں دوسنگسار ہونے والے مریدوں پر لگادیا۔ شاید اس لئے کہ مرزاقادیانی پر بڑھاپا غالب آرہا تھا اور سلطان محمد مرنے میں نہ آتا تھا۔ سنو! مرزاقادیانی راقم ہیں۔
’’ذکر اس پیش گوئی کا جو (براہین احمدیہ ص۵۱۱) میں درج ہے۔ ’’شاتان تذبحان وکل من علیہا فان‘‘ تیری جماعت میں سے دو بکریاں ذبح کی جائیںگی۔ یہ پیش گوئی شہید مرحوم مولوی عبداللطیف اور ان کے شاگرد عبدالرحمن کے بارے میں ہے۔ جو براہین احمدیہ کے لکھے جانے کے پورے تیئس برس بعد پوری ہوئی۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص۷۰، خزائن ج۲۰ ص۷۲)
مرزائیو! انہیں دلائل سے تم دنیا میں احمدیت پھیلاؤگے؟بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
ہاں ہاں یہ پیشگوئی تو تشریح الہامی مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد کے متعلق تھی جو نہایت ہی معفیٰ، عظیم الشان اور فوق العادت تھی جس سے انکار کرنے والا بقول مرزا قادیانی سخت بے حیا تھا۔ پس مرزا قادیانی کا اس جگہ عملاً اس پیش گوئی سے انکار کرکے اسے دوسری جگہ لگانا بے حیائی تو نہیں۔ انصاف والا نصاف خیر الاوصاف۔
مرزا قادیانی کا پراز مغالطہ عذر
مرزا قادیانی کی عادت تھی کہ وہ پہلے تو بڑے زور وشور سے پیش گوئی کرتے۔ جب وہ جھوٹی نکلتی تو اجتہادی غلطی کا عذر کردیتے۔ اس جگہ بھی یہی ہوا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ: ’’براہین احمدیہ کی پیش گوئی شاتان تذیحان مجھے مدت تک اس کے معنے معلوم نہ ہوئے۔ بلکہ اور اور جگہ کو