جائیںگی اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا۔ یعنی ہر ایک کو قضادرپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں۔ کوئی چار روز پہلے اس دنیا کو چھوڑ گیا اور کوئی پیچھے اسے جا ملا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۱۱ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳، خزائن ج۱ ص۶۱۰)
الہام کیا ہے چیستان ہے۔ ابتدائی فقرہ تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔ گویا کسی مذبح کے چوہدری کا اعلان ہے کہ: ’’دوبکریاں ذبح کی جائیںگی۔‘‘
ہزار کوشش کی گئی کہ اس کا مطلب معلوم ہو۔کچھ پتہ نہ لگا۔ آخر بحکم من طلب وجد تلاش کرتے کرتے اس سے سترہ سال بعد کی کتاب موسومہ ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ سے بھید کھلا کہ ان بکریوں سے مراد ایک تو آسمانی خسر ہے۔ دوسرا منکوحہ آسمانی کا خاوند یعنی مرزاسلطان محمد۔ چنانچہ لکھا ہے کہ: ’’پہلی بکری سے مراد مرزااحمد بیگ ہوشیار پوری ہے اور دوسری بکری سے مراد اس کا داماد ہے۔ یہ پیش گوئی آج سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے۔ اب سوچنا چاہئے کہ یہ انسان کا کام ہے۔ کیا انسان کو یہ طاقت وقدرت حاصل ہے کہ آئندہ واقعات کی خبر سالہاسال پہلے ایسی صفائی سے بیان کر سکے۔ کیا دنیا میں کوئی اور شخص موجود ہے۔ جس کی تحریروں میں یہ عظیم الشان سلسلہ پیش گوئیوں کا پایا جائے۔ یقینا کوئی سخت بے حیا ہوگا۔ جو اس فوق عادت سلسلہ سے انکار کرے۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷، خزائن ج۱۱ ص۳۴۱)
اف کس قدر چرب زبانی، لفاظی ولسانی سے ایک معمولی راولانہ، بے سروپیر، موم کی ناک کی طرح ہر طرف پھر جانے والی تک بندی کو مصفی، عظیم الشان، فوق العادت پیش گوئی قرار دیاہے اور جو معقول پسند اس مکروہ چالبازی کو شائستہ اعتنانہ سمجھے۔ اسے اپنی مسیحانہ خوش کلامی سے سخت بے حیا قرار دیا ہے۔ اف رے تیری چالاکی۔ آہ!
ملے تو حشر میں لے لوں زبان مرزا کی
عجیب چیز ہے اثبات مدعا کے لئے
مرزائی دوستو! اوعلم وعقل کے واحد اجارہ دارو! علماء اسلام کو جاہل کندہ ناتراش کہنے والو! خدا کے لئے انصاف کے نام پر دیانت کے واسطے سے جواب دو کہ اس قسم کی تک بندیوں کو عظیم الشان فوق العادت، پراز صفائی پیش گوئی ٹھہرانے والا اس لائق ہے کہ اسے مسیح موعود، خدا کا نبی، بلکہ جملہ انبیاء کا مظہر اتم سمجھا جاوے؟ پھر یہ بھی تو بتاؤ کہ یہ عظیم الشان پیش گوئی پوری کیوں نہ