لڑکی کا تین سال کے اندر اندر وفات پاجائے گا۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص اخیر، خزائن ج۵ ص۲۸۶، آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶، خزائن ج۲۲ ص۵۶۹، تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۲)
مرزاقادیانی کی اس دھمکی آمیز کارروائی کا اثر یہ ہوا کہ مرزااحمد بیگ نے مورخہ ۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو اس لڑکی کا نکاح مرزاسلطان محمد ساکن پٹی سے کردیا۔ چنانچہ وہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ، شان وشوکت، باجوں گاجوں کے ساتھ اس ’’آسمانی منکوحہ‘‘ کو بیاہ کر لے گیا اور بیچارے مرزاقادیانی جو ’’مالک کن فیکون‘‘ (نصرۃ الحق طبع اوّل ص۹۵، خزائن ج۲۱ ص۱۲۴) ’’مختار حیات وممات‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۶) ہونے کا دم مارا کرتے تھے۔ منہ دیکھتے اور بعد حسرت یہ کہتے رہ گئے ؎
چاہتا نہ تھا کہ تجھ کو دیکھوں پاس غیر کے
پر جو خدا دکھائے سولا چار دیکھنا
اب چاہئے تو یہ تھا کہ سلطان محمد جو ایک ’’صادق نبی اﷲ، بلکہ ظلی خدا‘‘ کا رقیب بنا فوراً نہ سہی، ’’الہامی پیش گوئی‘‘ کی میعاد اڑھائی سال میں فنا کے گھاٹ اتر جاتا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ بلکہ برعکس اس کے مرزاسلطان محمد دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا اور آج تک ’’بستر عیش‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۸۸) پر مزے کی نیند سوتا ہے نہ کسی ’’ٹیچی‘‘ فرشتہ کا ڈر، نہ خیراتی اور شیر علی ملکین قادیانی کا خوف وخطر۔
اس پیش گوئی کے متعلق مرزاقادیانی نے بعد گذرنے میعاد اڑھائی سالہ یہ عذر کیا کہ ان لوگوں نے توبہ کر لی ہے۔ جیسا کہ بعض نے میری بیعت بھی کی ہے۔ اس لئے ان لوگوں کی توبہ کے باعث سلطان محمد کی موت ٹل گئی۔ (جل جلالہ)
آئندہ کے لئے مرزاقادیانی نے یہ پیش گوئی فرمائی کہ: ’’اب سلطان محمد میری زندگی میں ضرور مرے گا اور وہ عورت یقینا یقینا میرے نکاح میں آئے گی۔ یہ امر تقدیر مبرم، خدا کا قطعی اور ان ٹل فیصلہ ہے اور اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔ ‘‘
(انجام آتھم ص۳۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۱، اشتہار مرزا مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳، مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ئ)
اسی سوچ بچار میں مرزاقادیانی کو اپنے الہامی تھیلے براہین حمدیہ کا ایک سترہ سال پہلے کا بھولا بسرا الہام ’’یٰادم اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ یاد آگیا۔ پھر کیا تھا آپ نے فوراً سے پہلے ہوشیار عطارکی طرح آب شیریں کو شربت نیلوفر سے تبدیل کرتے ہوئے لکھا: ’’براہین احمدیہ