ان گول مول پیش گوئیوں سے مقصود آپ کا یہ تھا کہ دنیا میں ہر روز بیسیوں واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پس جس جس واقع کو اپنے کسی الہام کے تھوڑا بہت مطابق پاؤں گا۔ اسی کو الہامی پیش گوئی بتاؤںگا۔
اس غیر معقول، بھدے اور بدنما طریق کے علاوہ آپ ایک خاص چال بھی چلا کرتے تھے۔ جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ یعنی جس طرح بعض چالاک وہوشیار دنیا دار عطار بیماری کے دنوں میں ایک ہی بوتل سے ہر قسم کا شربت دے دیا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص شربت بنفشہ لینے آیا تو اسی بوتل سے دے دیا۔ کسی کو نیلوفر کی ضرورت پڑی تو اسی سے نکال دیا۔ کسی نے بزوری مانگا تو اسی بوتل سے انڈیل دیا۔ کسی نے انجبار طلب کیا تو اسی سے گلاس بھردیا۔ بعینہ یہی حالت مرزاقادیانی کی تھی کہ آپ بھی اپنے ایک ہی گول مول الہام سے مختلف اوقات میں مختلف اور متعدد واقعات پر استدلال کر کے اپنی مسیحیت کی دوکان چلایا کرتے تھے۔
چونکہ یہ طریق نہایت غیر معقول اور پراز فریب ہے۔ جس کی موجودگی میں کوئی معقول پسند، سلیم الطبع، منصف مزاج انسان ایک منٹ کے لئے بھی مرزاقادیانی کو نبی ورسول تو بڑی بات ہے۔ ایک معمولی درجہ کا راست گو آدمی بھی تسلیم نہیں کرسکتا ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی بسبب اپنے عظیم الشان دعاوی کے جملہ انسانوں کو اپنی غلامی کا طوق پہنانا چاہتے تھے۔ اس لئے جیساکہ ہر انسان کا جو بروئے دلائل معقولہ (مرزاقادیانی کو غیر صادق سمجھتا ہے) اخلاقی، مذہبی اور قانونی حق ہے کہ وہ مرزاقادیانی کی ہر بات کو جانچے۔ حتیٰ کہ بال کی کھال اتار کر لوگوں کو مرزائیت سے بچائے۔ میں نے بھی مناسب سمجھا ہے کہ مرزاقادیانی کی تحریرات سے اس قسم کے مغالطات کی بیسیوں مثالوں سے سردست صرف پانچ امثلہ اپنے غلطی خوردہ غلام احمدی بھائیوں کی خدمت میں پیش کروں۔ ’’لعلہم یہتدون۰ وما ارید الا الاصلاح۰ وما توفیقی الا بااﷲ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘
درخواست
خاکسار مؤلف کے نزدیک یہ رسالہ قادیانی مشن کے متعلق فیصلہ کن ہے۔ اگر برادران اسلام ودیگر ناظرین کرام اسے مفید پائیں تو میری درخواست ہے کہ وہ اس کی اشاعت میں میرا ہاتھ بٹائیں۔ خاکسار: محمد عبداﷲ (ثالث) معمار امرتسر
کٹڑہ کرم سنگھ، کوچہ عثمان ڈار
ماہ محرم الحرام ۱۳۵۴ھ، مطابق ماہ اپریل ۱۹۳۵ء