بالکل نہیں اور نہ اس کی انتظار ہے۔‘‘ (مرزاقادیانی کا اشتہار ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۷)
’’میں نے صدہا کتابیں جہاد کے مخالف تحریر کر کے عرب اور مصر اور بلاد شام اور افغانستان میں شائع کیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۴ ص۴۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۷)
جب فلسطین مسلمانوں کے قبضے سے نکلا اور ریاست اسرائیل ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی تو ایک قادیانی مبلغ نے انگلستان کے اخبارات کو ایک مضمون روانہ کیا۔
’’بیت المقدس کے داخلہ پر اس ملک میں بہت خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ میں نے یہاں کے ایک اخبار میں اس پر آرٹیکل دیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ وعدہ کی زمین ہے۔ اب اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے وہ زمین نکلی ہے تو پھر اس کا سبب تلاش کرنا چاہئے۔ کیا مسلمانوں نے کسی نبی کا انکار تو نہیں کیا۔‘‘ (الفضل قادیان ج۵ ش۷۵ ص۷، مورخہ ۱۹؍مارچ ۱۹۱۸ئ)
قادیانیوں نے یہودیوں کے لئے جاسوسی کے فرائض انجام دئیے۔ انہیں پاکستان اور بلاد عرب کے راز پہنچاتے رہے اور آج کل بھی یہی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ عرب ممالک ان کی اسی طرح کی سرگرمیوں سے پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جاوید الرحمن (قادیانی) کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر بناکر بھیجنے کا فیصلہ کیاگیا تو سعودی حکومت نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ گذشتہ دنوں جب آزاد کشمیر اسمبلی نے قرارداد منظور کی تو رابطہ عالم اسلامی اور دیگر زعمائے عرب کی طرف سے سردار عبدالقیوم کے نام مبارک باد کے خطوط میں کہاگیا۔ ’’خدا کا شکر ہے آپ نے اس گروہ کو اقلیت قرار دیا۔ اس گروہ نے تو ہمارے خلاف جاسوسی کا پورا نظام قائم کر رکھا ہے۔ ہم اس کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔‘‘
اسرائیل سے ربوہ تک اور ربوہ سے اسرائیل تک ایک ہی سازش ہے۔ یہ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اپنے عرب بھائیوں کے خلاف یہودیوں کے ان ایجنٹوں کی سرگرمیوں کو سرکاری تحفظ نہ دے۔ عرب ہمارے بھائی ہیں۔ ان سے ہمیں مادی واخلاقی مدد ملتی ہے۔ ہم انہیں کیوں ناراض کریں۔ گورنمنٹ اپنی ذمہ داری محسوس کرے یا نہ کرے۔ اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس گروہ کی سازشوں سے پردہ اٹھنے کے بعد اس کا بائیکاٹ کرے اور یہودیوں کو وطن عزیز میں اپنی سازشوں کا جال پھیلانے کا موقع نہ دیں۔ وگرنہ یہ گروہ صیہونیت اور یہودیت کے مخصوص مقاصد پورے کرنے کے لئے اپنی سرگرمیاں علانیہ اور خفیہ انداز میں جاری رکھے گا۔ یہودیوں کے ان ایجنٹوں کا محاسبہ کیجئے اور یہودیت کے ہررنگ اور روپ کو اپنے ملک سے نکال پھینکئے۔