ہی رکھ لیتے۔ صبح کو ان کی ایسی حالت ہوجاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سرپیٹ لے۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۲۸، صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی)
’’ایک دفعہ ایک شخص نے بوٹ تحفہ میں پیش کیا۔ آپ اس کے دائیں بائیں کی شناخت نہ کرسکتے تھے۔ آخر اس غلطی سے بچنے کے لئے ایک طرف کے بوٹ پر سیاہی سے نشان لگانا پڑا۔‘‘ (منکرین خلافت کا انجام ص۹۶، مصنفہ جلال الدین شمس)
عادات واطوار کے اس اجمالی خاکہ کے بعد اب آئیے معاملات کی طرف۔ یہاں بھی مرزاقادیانی اور آپ کے احباب کی تحریریں ہیں۔ یہ انہیں کی بنائی ہوئی تصویریں ہیں۔ ہم تو صرف پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ یہ انہیں کا آئینہ ہے۔ ہم تو صرف دکھانے کی گستاخی کر رہے ہیں۔
چندے کی بہار
مرزاقادیانی نے اپنی جماعت کے چندوں سے جس طرح تمتع کیا۔ اس کا حال وہ خود بیان کرتے ہیں۔ ’’ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیش گوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا۔‘‘
’’مجھے اپنی حالت پہ خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپے ماہوار بھی آئیںگے۔ مگر خداتعالیٰ جو غریبوں کو خاک سے اٹھاتا ہے۔ اس نے میری دست گیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے اور شاید اس سے زیادہ ہو۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۱۱، ۲۱۲، خزائن ج۲۲ ص۲۲۰، مصنفہ مرزاغلام احمد قادیانی)
قومی چندے کے نام پر لئے گئے اس روپے کا کیا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا حال محمود احمد قادیانی خلیفہ قادیان کے ایک خطبے سے لگائیے۔ ’’لدھیانہ کا ایک شخص تھا۔ جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کے سامنے کہا کہ جماعت مقروض ہوکر اور بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتی ہے۔ مگر یہاں بیوی صاحب کے زیورات اور کپڑے بن جاتے ہیں اور ہوتا ہی کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا اس پر حرام ہے کہ وہ ایک حبہ بھی کسی سلسلے کے لئے بھیجے۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ اس سے کبھی چندہ نہ