محبی اخویم حکیم محمدحسین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ،
اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خریدیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر کی دکان سے خرید دیں۔ مگر ٹانک وائن چاہئے۔ اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیرت ہے۔ والسلام! مرزا غلام احمد عفی عنہ
خطوط امام بنام غلام ص۵، مجموعہ مکتوبات مرزا قادیانی بنام حکم محمد حسین قریشی قادیانی
یاد رہے کہ ٹانک وائن عمدہ قسم کی شراب ہے۔ جیسے کہ پلومر کی دکان سے ایک خط کے ذریعے دریافت کیاگیا تو جواب ملا۔ ٹانک وائن ایک قسم کی طاقتور اور نشہ دینے والی شراب ہے جو ولایت سے سربند بوتلوںمیں آتی ہے۔ اس کی قیمت ساڑھے پانچ روپے ہے۔
(سودائے مرزا ص۳۹)
’’مرزا شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سالے اور ان کے فرزند مرزاافضل احمد کے خسر تھے۔ انہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا۔ راستہ میں ایک بڑی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے۔ تسبیح کے دانے پھیرتے جاتے اور منہ سے گالیاں نکالتے جاتے۔ بڑا لٹیرا ہے۔ لوگوں کو لوٹنے کے لئے دکان کھول رکھی ہے۔ مرزاقادیانی سے میری رشتہ داری ہے۔ آخر میں نے کیوں نہ اسے مان لیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اصل میں آمدنی کم ہے۔ بھائی نے جائیداد سے بھی محروم کردیا۔اس لئے یہ دکان کھول لی ہے۔‘‘ (میاں بشیر الدین محمود صاحب کی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۵ئ، مندرجہ اخبار الفضل قادیان ج۳۴ ش۹۱ ص۴، مورخہ۱۷؍اپریل ۱۹۴۶ئ)
’’نئی جوتی جب پاؤں میں کاٹتی تو جھٹ ایڑی بٹھالیا کرتے تھے اور اسی سبب سے سیر کے وقت گرداڑ اڑ کر پنڈلیوں پر پڑ جایا کرتی تھی۔ جس کو لوگ اپنی پگڑیوں وغیرہ سے صاف کردیا کرتے تھے۔ شیخ رحمت اﷲ صاحب یادیگر احباب اچھے اچھے کپڑے کے کوٹ بنوا کر لایا کرتے۔ حضور کبھی تیل سر مبارک میں لگاتے تو تیل والا ہاتھ سر مبارک اور داڑھی مبارک سے ہوتا ہوا بعض اوقات سینہ تک چلا جاتا۔ جس سے قیمتی کوٹ پر دھبے پڑ جاتے۔‘‘
(اخبار الحکم قادیان مورخہ ۲۱؍فروری ۱۹۳۵ئ)
’’کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ صدری، ٹوپی، عمامہ رات کو اتار کر تکیہ کے نیچے