میں نہیں آئی کہ آخراحمدیوں نے ایک علیحدہ عرضداشت کیوں پیش کی۔ اس علیحدہ نمائندگی کی ضرورت صرف اس وجہ سے پیدا ہوسکتی تھی کہ احمدی حضرات مسلم لیگ کے موقف سے متفق نہ تھے۔ یہ بات خود اپنی جگہ بڑی افسوسناک تھی۔ میری رائے میں ممکن ہے ان کی نیت یہ ہو کہ مسلم لیگ کا مقدمہ مضبوط بنایا جائے۔ لیکن انہوں نے شکرگڑھ کے مختلف حصوں کے بارے میں جو اعداد وشمار پیش کئے ان سے الٹا یہ ثابت ہوگیا کہ دریائے بھین اور دریائے بسنتر کے درمیانی علاقے پر غیر مسلم آبادی کی اکثریت ہے اور اس طرح انہوں نے یہ دلیل فراہم کر دی کہ اگر دریائے اوجھ اور دریائے بسنتر کا دوآبہ بھارت کو دے دیا جائے تو بھین بسنتر دوآبہ اپنے آپ بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ بہرکیف یہ علاقہ ہمارے پاس رہا۔ مگر احمدیوں نے جو مؤقف اختیار کیا وہ گورداسپور کے معاملے پر ہمارے لئے سخت نقصان کا باعث ہوا۔‘‘ (پاکستان ٹائمز مورخہ ۲۴؍جون ۱۹۶۴ئ)
روزنامہ مشرق ۳؍فروری ۱۹۶۴ء کو لکھتا ہے۔ ’’ضلع گورداسپور کے سلسلہ میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ اس کے متعلق چوہدری ظفر اﷲ خان، جو مسلم لیگ کی وکالت کر رہے تھے۔ خودبھی ایک افسوس ناک حرکت کر چکے تھے۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کا نقطۂ نگاہ عام مسلمانوں سے (جن کی نمائندگی مسلم لیگ کر رہی تھی) جداگانہ حیثیت میں پیش کیا۔ اب جب کہ سوال یہ تھا کہ مسلمان ایک طرف ۱؎ اور باقی سب دوسری طرف تو کسی جماعت کا اپنے آپ کو مسلمان سے علیحدہ ظاہر کرنا مسلمانوں کی عددی قوت کو کم کرنے کے مترادف تھا۔‘‘
اس حقیقت سے تو ہر کوئی واقف ہے کہ تحصیل پٹھانکوٹ کے ہندوستان میں مل جانے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پیدا ہوا۔ جو آج تک حل نہ ہوسکا۔ قادیان کے ہندوستان میں مل جانے کے مختلف فوائد بتاتے ہوئے ایک مرزائی صاحب قلم مرزا شکر علی کلوی نے لکھا۔ ’’عجیب اتفاق اور ایشور کی شان ہے کہ باوجودیکہ قادیان بروقت تقسیم پاکستان میں شامل ہوچکا تھا۔ مگر ایشور نے ہندوؤں کی دل جوئی کرتے ہوئے تاکہ ان کو کرشن ثانی (مرزاغلام احمد قادیانی) پر ایمان لانے کی توفیق ملے۔ بھارت میں واپس کردیا کہ ہندوؤں کو اس اعتراض کا موقعہ نہ دیا جائے کہ اب یہ کرشن ثانی بدیشی ہوگئے۔‘‘ (کرشن ثانی اور جنگ مہا بھارت ثانیہ ص۳۶)
۱؎ جب خود قادیانی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ تسلیم کرانے پر زور لگاچکے ہیں۔ مردم شماری میں علیحدہ نام لکھواچکے ہیں۔ جماعت الگ مانتے ہیں اور ان کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر اقلیت کا اس کے سوا اور کیا معنی ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو قانوناً تسلیم کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں اور مسلمان حکمران اس گریز کو کیوں نہیں سمجھتے۔ یا للعجب!